صدر ڈاکٹر محمد مرسی کس جرم میں مارے گئے؟: اندرونی کہانی

مصر کے سابق صدر ڈاکٹر محمد مرسی

مصر کے سابق صدر ڈاکٹر محمد مرسی

نیوز ٹائم

ڈاکٹر محمد مرسی اور ان کی جماعت کیسے برسراقتدار آئی؟ یہ ایک طویل کہانی ہے جو ہمیں بتاتی ہے کہ انھیں ایوان اقتدار کی طرف بڑھنے سے کیسے روکنے کی کوشش کی گئی،  تاہم جب وہ تمام تر رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے ملک کی کمان سنبھالنے میں کامیاب ہوئے تو اقتدار پسند فوجی جرنیلوں نے جمہوریت کے نعرے لگانے والے سیکولر اور لبرل طبقہ کو استعمال کرتے ہوئے کیسے ملک کو ایک بار پھر آمریت کی راہ پر ڈال دیا۔ملک کی سب سے بڑی جماعت اخوان المسلمون اور دیگر انقلابی گروہوں کی بھرپور جدوجہد کے نتیجے میں عشروں سے اقتدار پر مسلط ڈکٹیٹر حسنی مبارک فروری 2011ء میں ایوان اقتدار سے نکل بھاگے تو فوج کی سپریم کونسل نے عبوری اقتدار سنبھال لیا۔

فوجی سپریم کونسل نے پہلے مرحلہ میں ایوان زیریں اور ایوان بالا کے انتخابات منعقد کرائے، یہ جنوری 2012ء میں مکمل ہوئے۔ دونوں ایوانوں میں تقریباً تین، چوتھائی سیٹیں اسلام پسند اخوان المسلمون اور النور کے حصے میں آئیں جبکہ سیکولر و لبرل جماعتیں مکمل طور پر ناکام رہیں۔ حسنی مبارک کے ساتھیوں نے بھی انتخابات میں حصہ لیا تھا لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی کامیاب نہ ہو سکا۔مئی 2012ء میں صدارتی انتخاب منعقد ہوا جس میں اخوان المسلمون کے سیاسی بازو فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر محمد مرسی نے 51 فیصد ووٹ حاصل کر کے کامیابی حاصل کی۔ صدارتی انتخاب دو مراحل میں ہوا۔  پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار 50 فیصد سے زائد ووٹ حاصل نہ کر سکا، رن آف الیکشن سرفہرست ڈاکٹر محمد مرسی اور حسنی مبارک دور کے آخری وزیر اعظم Ahmad Shafiq کے درمیان ہوا۔ صدارتی نتائج آنے کے فوری بعد عسکری کونسل نے 1981ء سے مسلط ایمرجنسی ختم کر دی۔

مئی 2012ء ہی میں حسنی مبارک کو مظاہرین کے مقدمہ قتل میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی جبکہ جولائی میں اعلی ترین آئینی عدالت نے پارلیمان کے بعض ارکان کا انتخاب غیر قانونی قرار دے کر پارلیمان تحلیل کرنے کا حکم  دے دیا۔ فوجی کونسل نے عدالتی حکم پر فی الفور عملدرآمد کرتے ہوئے حکم نامہ جاری کر دیا۔ اس سے ملک میں سیاسی بحران پیدا ہو گیا۔ ماہرین حیران تھے کہ پارلیمان کے بعض ارکان کے انتخاب کے غیر قانونی ہونے سے پوری پارلیمان کیسے تحلیل ہو سکتی ہے؟ بعض حلقوں کا خیال تھا کہ ملک کی اصل مقتدر فوج اور حسنی مبارک کے بنائے ہوئے ججز کو اسلام پسندوں کی اکثریت کی حامل پارلیمان قبول نہیں،  اس لئے وہ سارے نظام کو رول بیک کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت تک صدر مرسی کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے، انھوں نے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی لیکن وہ پھڑپھڑانے سے زیادہ کچھ نہ کر سکے کیونکہ فوجی کونسل ہی سارے فیصلے کرنے پر تلی ہوئی تھی، حتی کہ وہ صدر مملکت کو سپریم کمانڈر ماننے کو بھی تیار نہ تھی۔ اگست میں صدر مرسی نے حکومت سازی کرنے کا فیصلہ کیا۔ Hashim Kandil کو وزیر اعظم مقرر کیا جنھوں نے ٹیکنوکریٹس، اسلام پسندوں، سیکولر اور لبرل افراد پر مشتمل اپنی کابینہ تشکیل دی۔ دوسری طرف فوج کی طرف سے پہلے سے حکم آ چکا تھا کہ وزیر دفاع فوجی کونسل کے سربراہ Field Marshal Mohamed Hussein Tantawi  ہی ہوں گے۔

٭اقتدارپسند جرنیلوں کی برطرفی:

صدر مرسی کے حکومت سازی کرنے کے بعد فوج نے نہ صرف ملک پر اپنا کنٹرول برقرار رکھنے اور صدر مرسی کو مجبور محض بنا کر رکھنے کا فیصلہ کیا۔ فوج چاہتی تھی کہ نیا صدر فوجی سپریم کونسل کی ہدایات پر عمل کرے، اس کی طرف سے آنے والے فیصلوں پر محض دستخط کرے۔ چنانچہ پہلے دن سے ہی فوج اور صدر مرسی کے درمیان کشمکش شروع ہو گئی۔ آنے والے حالات نے ثابت کیا کہ ڈاکٹر محمد مرسی جرنیلوں ہی کو فیصلہ کن طاقت تسلیم کر لیتے، خود رسمی طور پر صدر بنے رہتے تو وہ کبھی صدارتی محل سے نہ نکالے جاتے۔ تاہم جس دن صدر مرسی نے اقتدار پسند جرنیلوں کو ہٹایا اور طاقتور سربراہ مملکت بنے، اسی روزسے فوج اور ججز انھیں ہٹانے کے لئے ماحول بنانے میں جت گئے۔ پھر اگست ہی میں Desert Sena میں ایک فوجی چوکی پر شدت پسندوں کے حملہ کا واقعہ پیش آیا جس میں 16 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔  یہ واقعہ غیر معمولی اور حیران کن نتائج لے کر سامنے آیا۔ صدر مرسی نے فی الفور انٹیلی جنس چیف جنرل Mourad Mouwafi اور متعلقہ صوبہ کے گورنر کو برطرف کر دیا۔ بعد ازاں وزیر دفاع اور آرمی چیف Tantawi ، چیف آف سٹاف Sami Anan سمیت تینوں افواج کے 6 اعلی افسران کو بھی فارغ کر دیا۔ یاد رہے کہ یہ سارے فوجی افسران حسنی مبارک کے قریبی ساتھی شمار کئے جاتے تھے۔ صدر مرسی کے عملا سپریم کمانڈر بننے کے بعد حسنی مبارک دور کی پیداوار ججز تنہا ہو کے رہ گئے تھے۔ تاہم وہ انقلاب 25 جنوری کے 850 شہدا کے قاتلوں کو ایک، ایک کر کے رہا کر رہے تھے۔ان کے فیصلوں سے واضح ہو رہا تھا کہ وہ انقلاب کو رول بیک کرنا چاہتے ہیں۔

٭آئینی ریفرنڈم:

نومبر 2012 ء میں آئین ساز اسمبلی نے آئینی مسودہ منظور کر لیا، صدر مرسی نے مسودے پر دستخط کر کے اسے منظوری کے لئے عوامی ریفرنڈم کا اعلان کر دیا۔

اپوزیشن نے ریفرنڈم منسوخ کرانے کی بھرپور کوشش کی تاہم صدر مرسی اپنے فیصلے پر قائم رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئینی مسودہ کو منظور یا مسترد کرنے کا حتمی اختیار عوام ہی کے پاس ہے،  اس لئے وہ ریفرنڈم بہرحال کرائیں گے۔ ریفرنڈم کی نگرانی ججز کو کرنا تھی تاہم ملک کے مجموعی 21000 ججز میں سے 12000 نے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ ایسے میں صدر مرسی نے ریفرنڈم کو دو حصوں میں منعقد کرنے کا پروگرام بنایا۔ پہلے مرحلے میں قاہرہ سمیت ملک کے 27 صوبوں میں سے 10 صوبوں میں 15 دسمبر کو ووٹنگ ہوئی جبکہ دوسرا مرحلہ 22 دسمبر کو منعقد ہوا۔ پہلے مرحلے میں 57 فیصد جبکہ دوسرے مرحلے میں 64 فیصد لوگوں نے ہاں پر مہر لگائی۔ اپوزیشن نے بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کئے لیکن آئینی ریفرنڈم کے نتائج تسلیم کر لئے۔

٭صدر مرسی کے دور رس اقدامات:

تمام تر مخالفتوں کے باوجود ڈاکٹر مرسی نے اپنے پہلے سال کیا خدمات سرانجام دیں؟ اس کا جواب لبنان سے تعلق رکھنے والے معروف تجزیہ نگار Qutub A-Arabi یوں دیتے ہیں:  ڈاکٹر محمد مرسی کا سب سے بڑی کارنامہ (جو انقلاب روم کے نصف کے برابر ہے) فوج اور شہریوں کے درمیان اقتدار کے دوہرے پن کو ختم کرنا ہے تاکہ 60ء کے عشرے میں متعارف کردہ فوجی نظام حکومت کے بعد مصر خالص شہری سٹیٹ بن سکے۔ فوجی کونسل نے اس دعوی سے کہ اس نے انقلاب 25 جنوری کے دوران عوام کی حفاظت کی تھی، اس کے خلاف ہتھیار استعمال نہیں کئے تھے، پبلک اور پرائیویٹ اداروں کی حفاظت کی تھی،  قوم پر اپنے اس احسان کے بدلے میں اس نے خود ہی اپنے آپ کو انقلاب پر وصی مقرر کر لیا تھا، پھر حسنی مبارک کے جانے کے بعد وہی عملا مصر کی حاکم بن بیٹھی تھی،  حتی کہ صدر محمد مرسی نے 12 اگست کو اپنے انقلابی اقدامات کے ذریعے فیلڈ مارشل Hussein Tantawi ، Colonel Sami ، ملٹری کونسل کے دیگر نمایاں کمانڈروں کو برطرف کر کے نئے وزیر دفاع، چیف آف آرمی سٹاف اور بنیادی شعبوں کے کمانڈروں کو مقرر کیا، پھر نئے وزیر دفاع نے سابق نظام حکومت سے وابستہ 70 فوجی افسران کو ریٹائر کیا۔

Qutub A-Arabi کا کہنا تھا: صدر مرسی نے قرضوں میں پھنسے ہوئے ہزاروں کسانوں کو معافی دی، ملازمین اور پنشنروں کو 15 فیصد الائونس دیا، اجتماعی انشورنس کی رقم میں ماہانہ 300 پائونڈ کا اضافہ کیا، ہزاروں عارضی ملازمین و مزدوروں کو مستقل کیا،  شمالی مغربی خلیج سوئس کے غیر سنجیدہ سرمایہ کاروں سے 24 ملین میٹر مربع زمین واپس لی، اس کے علاوہ پورٹ سعید کے مشرق میں 41 ملین میٹر مربع زمین واپس لینے کے احکام صادر کئے، تمام ضلعوں اور سرکاری اداروں میں شکایات سیل قائم کئے جہاں لوگ ان کے خلاف شکایات درج کراتے ہیں اور جن پر ایکشن ہوتا ہے)، دو مراحل میں سیاسی قیدیوں کو رہا کیا، سابق نظام سے مربوط افسران کی تطہیر کا عمل بھی جاری رکھا۔ دوسری طرف سرکاری اور عوامی سطح پر صفائی اور تزئین و آرائش کی ایک وسیع مہم جاری ہے، جس کی بدولت سڑکوں اور میدانوں سے ٹنوں کوڑا کچرا اٹھایا گیا،  بجلی کی کمی پر فوری طور پر قابو پا لیا گیا، گیس پائپ لائن کا مسئلہ ختم ہو گیا، روٹی بحران اور اس کی لمبی قطاریں بھی غائب ہو گئیں۔

ڈاکٹر مرسی نے خطے میں مصر کی صحیح معنوں میں قیادت بحال کی، سعودی عرب، ایتھوپیا، چین، ایران، اٹلی اور بروکسل میں یورپی یونین کے دوروں میں کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے ہوئے۔ صدر مرسی برسراقتدار رہتے تو مصر، ترکی اور قطر کا ایک نیا اتحاد پروان چڑھتا جو خطے میں خاصی اہمیت کا حامل ہوتا۔انھوں نے برسراقتدار آتے ہی اس اتحاد کی کوششیں شروع کر دیں تھیں۔ اس سے پہلے ترکی اور قطر، مشرق وسطی میں زیادہ متحرک نہیں تھے جبکہ مصر سابق صدر حسنی مبارک کے دور میں مختلف حکمت عملی اختیار کئے ہوئے تھا جس سے اسرائیلی مفادات کو زیادہ فائدہ پہنچتا تھا جبکہ فلسطینی بے بس تھے۔ یاد رہے کہ صدر ڈاکٹر محمد مرسی اسی اخوان المسلمون کے تربیت یافتہ تھے جس نے فلسطین کی تحریک حریت حماس کو جنم دیا تھا۔ظاہر ہے کہ مرسی کے اقتدار میں اسرائیل ایسا کوئی ناجائز فائدہ نہیں اٹھا سکتا تھا جو اسے اب تک مل رہے تھے۔

٭اپوزیشن اتحاد کی تشکیل:

صدر مرسی جس رفتار سے اقدامات کر رہے تھے، کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کرتے تو مصر کو کس قدر ترقی، خوشحالی اور استحکام ملتا۔  یہی چیز اقتدار پسند فوجی جرنیلوں، مخالف سیکولر اور لبرل جماعتوں کو بے چین کر رہی تھی۔ فوج کو کون سا درد بے چین کر رہا تھا، وہ سابقہ سطور میں بیان ہو چکا ہے تاہم سیکولر اور لبرل حلقے مضطرب تھے کہ اسلام پسند ملک کے سیاسی منظرنامے پر اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو ان کے لئے کوئی جگہ نہیں بچے گی۔ صدر مرسی کی حکومت قائم ہونے کے بعد سیکولر اور لبرل حلقے نیشنل سالویشن فرنٹ کے نام سے متحد ہو گئے۔ وہ صدر مرسی کو پریشان کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے رہے تھے، وہ ایک شکست کے بعد اگلے معرکے کیلئے سڑکوں پر نکل آتے تھے۔ مخالف کیمپ میں صرف حسنی مبارک کے حامی نظر آتے تو قابل فہم بات تھی لیکن وہاں تو حسنی مبارک کے خلاف کامیاب انقلابی تحریک میں شامل ہونے والے لبرل اور سیکولر انقلابی بھی نظر آ رہے تھے۔ حیران کن بات یہ تھی کہ وہ اس پراسیکیوٹر جنرل عبد المجید محمود کی برطرفی کا صدارتی فیصلہ تسلیم کرنے سے بھی انکاری تھے جس پر الزام تھا کہ اس نے شہدائے انقلاب کے قاتلوں کے خلاف شفاف تحقیقات کے بجائے انھیں رہا کرانے میں زیادہ سرگرمی دکھائی تھی۔ صدر مرسی کے مخالفین میں صحافی بھی شامل تھے، حالانکہ انھیں نصف صدی سے زائد عرصہ میں پہلی بار آزادی نصیب ہوئی تھی۔ واضح رہے کہ صدر مرسی نے برسراقتدار آ کر صدر کی ہتک کا قانون سرے سے ہی ختم کر دیا تھا۔ صحافیوں کو اس قدر آزادی نصیب ہوئی کہ نیوزکاسٹر بھی ٹی وی سکرین پر آ کر خبریں پڑھنے کے بجائے صدر کے خلاف تقریریں کرنے لگیں۔

٭مصری سلفیوں کے سرپرست ملک کا مسئلہ:

جون 2011ء  میں مختلف سلفی گروہ Al-Noorکے نام سے اکٹھے ہوئے تھے اور عماد الدین عبد الغفور سربراہ بن گئے۔ حسنی مبارک کے بعد منعقد ہونے والے پہلے عام انتخابات میں النور دوسری بڑی جماعت بن کے ابھری تھی۔ اس نے 75 لاکھ 34 ہزار 266 ووٹ 27.8 فیصد حاصل کر کے پارلیمان کی مجموعی 498 نشستوں میں سے 127 سیٹیں حاصل کی تھیں۔ ڈاکٹر محمد مرسی نے صدر منتخب ہونے کے بعد Imad al-Din Abdul Ghafoor کو اپنا مشیر مقرر کر لیا۔ ان کا یہ اقدام مصری سلفیوں کو ایک مہرہ کے طور پر استعمال کرنے والے ایک ملک کو پسند نہ آیا، اسے خدشہ لاحق ہو گیا کہ مصری سلفی اسی طرح صدر مرسی کے قریب ہوتے چلے گئے تو وہ اس سے دور ہو جائیں گے، چنانچہ صدر مرسی کا اقتدار اس کے لئے ناقابل برداشت ہو گیا۔ نتیجتاً پہلے مرحلے پر سلفیوں کو تقسیم کیا گیا۔ خیال ہے کہ یہ تقسیم ان کے سرپرست ایک عرب ملک کا منصوبہ تھا۔

٭صدر مرسی کے خلاف تحریک چلانے کا بہانہ کیا بنا؟

ڈاکٹر محمد مرسی پر ان کے مخالفین صدارتی مہم سے لے کر تادم آخر مسلسل حملے کرتے رہے۔ صدارتی مہم کے دوران انھیں امریکی شہری قرار دے کر نااہل کرانے کی کوشش کی گئی  تاہم یہ حملہ معمولی ہی ثابت ہو سکا۔ صدارتی انتخاب کے موقع پر فوجی جرنیل ان کی راہ میں رکاوٹ بننے لگے تھے، انھوں نے حسنی مبارک کے آخری وزیر اعظم Ahmad Shafiq کی جیت کے تمام تر انتظامات مکمل کر لئے تھے،  حتی کہ انتخابی نتائج میں آخری لمحے پر بھی رد و بدل کی کوشش کی گئی لیکن ڈاکٹر مرسی کی جماعت فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی (اخوان المسلمون کے سیاسی بازو) نے ہر پولنگ سٹیشن کے سرکاری مصدقہ نتائج کی نقول حاصل کر کے، انھیں ایک کتاب کی صورت دے کر پورے ملک میں تقسیم کر دیا۔ فوجی جرنیلوں نے ان اعداد و شمار کو جمع کرتے ہوئے ہیرا پھیری کرنی تھی لیکن فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی نے اپنی چال چل کر فوجی جرنیلوں کو بے بس کر دیا۔ یوں الیکشن کمیشن کو ڈاکٹر مرسی کی کامیابی کا اعلان کرنا ہی پڑا۔

بعد ازاں فوجی جرنیلوں کی کونسل نے اپنے آپ کو صدر مرسی پر بالادست قرار دے دیا۔ اس مہم میں حسنی مبارک کے متعین کردہ ججز کی عدلیہ بھی فوجی کونسل کے ساتھ تھی۔  یوں محسوس ہو رہا تھا، جیسے صدر مرسی کو نام نہاد صدر کے طور پر ہی زندگی بسر کرنا ہو گی تاہم پھر ایک روز صدر مرسی نے اچانک فوجی کونسل کے سربراہ سمیت تمام افواج کے سربراہان کو برطرف کر دیا اور اپنی بالادستی ثابت کر دی۔ یہ اقدام اس قدر اچانک اور حیران کن تھا کہ برطرف ہونے والے جرنیلوں کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ اگلے ہی لمحے نئی تعیناتیاں کر دی گئیں۔

٭باقاعدہ لڑائی کا آغاز:

اب تک کی کہانی سے آپ کو اندازہ ہو چکا ہے کہ صدر مرسی کے خلاف میدان کیسے تیار کیا گیا۔  پھر باقاعدہ لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب صدر مرسی نے پراسیکیوٹر جنرل عبد المجید محمود کو ان کے عہدے سے برطرف کرتے ہوئے ان سرکاری اہلکاروں کے دوبارہ ٹرائل کا حکم جاری کیا جو حسنی مبارک کی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران انقلابیوں کی ہلاکتوں میں ملوث سمجھے جاتے تھے۔  یاد رہے کہ سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 850 مظاہرین ہلاک ہوئے تھے۔  پراسیکیوٹر جنرل کی برطرفی کا سبب یہ بیان کیا گیا کہ اس نے انقلاب کے دوران میں ہونے والی ہلاکتوں کی شفاف  اور منصفانہ تحقیقات کے بجائے ذمہ دار اہلکاروں کو سزا سے بچانے میں زیادہ سرگرمی دکھائی۔ اپنے صدارتی فرمان میں جہاں ڈاکٹر مرسی نے Talaat Ibrahim Abdullah کو نیا پراسیکیوٹر جنرل مقرر کیا، وہاں دستور ساز اسمبلی کی مدت میں دو ماہ کی توسیع کا اعلان بھی کیا۔  ساتھ یہ بھی قرار دیا کہ صدر نے عہدہ سنبھالنے کے بعد جو بھی فیصلے کئے، قوانین اور اعلامیے منظور کئے،  انھیں عدلیہ سمیت کوئی بھی اتھارٹی منسوخ نہیں کر سکتی اور نہ ہی ان کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے۔ فرمان میں یہ بھی شامل تھا کہ مصر کی دستورساز اسمبلی اور پارلیمان کے ایوان بالا شوری کونسل کو عدلیہ سمیت کوئی بھی اتھارٹی تحلیل نہیں کر سکتی۔ پراسیکیوٹر جنرل کی برطرفی پر ججز نے صدر مرسی کے متعین کردہ نئے پراسیکوٹر جنرل Talaat Ibrahim Abdullah پر اس قدر زیادہ دبائو بڑھایا کہ انھوں نے ازخود استعفی دے دیا۔ اپوزیشن جماعتیں ڈاکٹر مرسی کے اقدامات کو مطلق العنان بننے کی کوشش سے تعبیر کر رہی تھیں،  عدلیہ نے بھی ابتدائی طور پر اسے اپنی آزادی پر حملہ قرار دیا اور ججز نے ہڑتال کر دی۔

٭عدالتی اصلاحات بھی مسئلہ بن گئیں:

مصری صدر عدالتی اصلاحات متعارف کرانا چاہتے تھے جن کے مطابق ریٹائرمنٹ کی حد عمر 70 سال سے کم کر کے 60 سال کی جاتی۔ نتیجتاً 3000 ہزار سے زیادہ جج خود بخود سبکدوش ہو جاتے، ججز کلب نے ان اصلاحات کی شدید مخالفت کی۔  جبکہ سلفیوں کی جماعت Al-Noorنے بھی یہ کہہ کر اصلاحات کو مسترد کر دیا تھا کہ آئین کے تحت قانون میں ترمیم سے قبل عدلیہ سے وسیع تر مشاورت کی ضرورت ہے۔ قاہرہ میں عدالت عالیہ کے باہر مٹھی بھر افراد نے مظاہرہ کیا اور انھوں نے عدلیہ کی آزادی کے حق میں نعرے لگائے جبکہ اسلامی جماعتوں نے عدلیہ کی تطہیر کے عنوان سے مظاہرے کیے تھے۔ اس کے لئے صدر محمد مرسی اور اعلی عدلیہ کے جج صاحبان پر مشتمل کونسل کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں عدالتی نظام کے مستقبل کے عنوان پر ایک کانفرنس بلانے پر اتفاق کیا گیا تاکہ دونوں فریقوں کے لیے قابل قبول اصلاحات وضع کی جائیں۔ اس کے بعد صدر مرسی اس کانفرنس میں منظور کردہ مجوزہ قوانین سے متعلق تمام سفارشات کو اختیار کرتے ہوئے انھیں حتمی منظوری کے لیے مجلسِ شوری (پارلیمان کے ایوان بالا)  میں پیش کرتے۔

٭صدر مرسی اور ان کی جماعت کا موقف:

اس مرحلے پر ڈاکٹر مرسی کا کہنا تھا: مصر کی آزادی اور جمہوریت کی راہ پر گامزن ہے۔ میں ملک میں سیاسی، معاشی اور سماجی استحکام کیلئے کام کر رہا ہوں۔ میں نے ہمیشہ عوام کی نبض پر ہاتھ رکھا اور عوام کی منشا کو پہچانا ہے اور انشا اللہ مستقبل میں بھی ایسا ہی کروں گا۔ کوئی بھی ہماری آگے کی طرف پیش قدمی کو روک نہیں سکتا۔ میں اللہ اور قوم کے سامنے سرخرو ہونے کیلئے اپنے فرائض سرانجام دے رہا ہوں اور میں نے ہر کسی سے مشاورت کے بعد فیصلے کئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی قیمت پر قانون کا نفاذ کیا جائے گا اور میں ان لوگوں کے خلاف ثابت قدم رہوں گا جو مصر کو تباہ کرنا چاہتے ہیں اور اس کی جمہوری جدوجہد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنا چاہتے ہیں۔ میں نے جو بھی اقدامات اور فیصلے کئے ہیں، ملکی مفاد میں کئے ہیں اور ان کا کسی بھی طرح یہ مطلب نہیں ہے کہ میں اپنے آئینی اختیارات میں اضافہ کرنا چاہ رہا ہوں۔ میں جب بھی ملک اور انقلاب کو خطرے میں دیکھتا ہوں تو صورتحال میں مداخلت کرنے اور قانون کی عملداری کا پابند ہوں۔ جبکہ فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے ایک اعلی رہنما جہاد حداد کا کہنا تھا کہ انقلاب کو بروئے کار لانے کیلئے ڈاکٹر مرسی کے حالیہ فیصلے ضروری تھے کیونکہ مظاہرین کی ہلاکتوں میں ملوث وزارت داخلہ کے اہلکاروں کے خلاف نئے سرے سے قانونی کارروائی کیلئے کوئی چارہ کار نہیں رہا تھا۔  مظاہرین کی ہلاکتوں میں ملوث اہلکاروں کے خلاف ناقص تفتیش کی گئی اور ان کے خلاف شواہد کو ضائع کر دیا گیا یا انھیں چھپا دیا گیا۔ جس کی وجہ سے بہت سے اہلکاروں کو ان مقدمات سے بری کیا جا چکا ہے۔

٭ اور پھر احتجاج شروع ہو گیا:

سن 2013ء میں صدر مرسی کی صدارت کا پہلا سال مکمل ہونے پر اپوزیشن اور حکمران جماعت، دونوں نے مظاہروں کا اعلان کیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے پرامن مظاہروں کی یقین دہانی کرائی گئی تھی لیکن ایسا نہ ہو سکا۔  مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں مسلح افراد نے حکمراں جماعت اخوان المسلمون کے ہیڈ کوارٹرز پر دھاوا بولنے کے بعد اسے نذرآتش کر دیا،  مظاہرین وہاں سے سامان لوٹ کر لے گئے، اس پر اخوان المسلمون کے رہنمائوں نے سیکیورٹی فورسز کے کردار پر کڑی تنقید کی کہ وہ اخوان کے ہیڈ کوارٹرز کو تحفظ مہیا کرنے میں ناکام رہیں۔

٭اپوزیشن کی طرف سے فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت:

یہ بھی کم بدقسمتی نہ تھی کہ جمہوریت کے ایک بڑے اور بائیں بازو کے رہنما حمدین صباحی نے واضح طور پر فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دی۔ انھوں نے کہا: اگر صدر مرسی عوامی امنگوں کا احترام کرتے ہوئے اقتدار سے الگ نہیں ہوتے تو فوج مداخلت کر کے انہیں ایسا کرنے پر مجبور کرے۔ پختہ جمہوری سوچ کے حاملین سیاست میں کسی بھی صورت میں فوج کو دخل دینے کی اجازت نہیں دیتے،  چاہے آسمان ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑے لیکن یہ آسمان نہیں ٹوٹا تھا بلکہ مصر ترقی، خوشحالی اور استحکام کی راہ پر چلنے لگا تھا۔  بدقسمتی سے مصر کے لبرل اور سیکولر حلقوں کے بارے میں یہ تاثر مضبوط ہوا کہ وہ کسی ایسی جمہوریت کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں جس کے نتیجے میں حکومت کسی اسلامی ذہن رکھنے والے فرد کو مل جائے۔

٭صدر مرسی کے خلاف احتجاج کی بنیادیں:

جرنیل، ججز اور سیکولر، لبرل حلقے صدر مرسی کے خلاف احتجاج کے تین اسباب بیان کرتے تھے:  اول: جب صدر مرسی نے اقتدار پسند فوجی قیادت کو ان کے مناصب سے فارغ کیا اور نئے جرنیلوں کو ذمہ داریاں تفویض کیں  تو حمدین صباحی اور محمد البرادعی جیسے اپوزیشن رہنمائوں نے صدارتی اقدام کو غلط قرار دیا۔ حالانکہ دنیا کے ہر جمہوری ملک کا آئین ملک کے سربراہ کو حق دیتا ہے کہ وہ فوجی قیادت کو تبدیل کر سکتا ہے حتی کہ بلاجواز بھی ایسا کر سکتا ہے۔

دوم: دوسری بنیاد 22 نومبر 2012ء کا جاری کردہ صدارتی فرمان تھا جسے عدلیہ کی آزادی ختم کرنے کی کوشش کے طور پر سمجھا گیا۔ حالانکہ ڈاکٹر مرسی نے یہ فرمان آئین ساز اسمبلی کے تحفظ کے لئے جاری کیا تھا اور قرار دیا تھا کہ عدلیہ اس کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں دے سکتی۔ ساتھ ہی اسمبلی کی مدت میں دو ماہ کا اضافہ کر دیا۔ فرمان میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ کوئی بھی ادارہ صدارتی اقدامات کو کالعدم قرار نہیں دے سکتا۔ فرمان میں سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف انقلابی تحریک کے دوران ہلاکتوں کے واقعات کی ازسرنو تحقیقات کی بات بھی کی گئی تھی۔

سوئم: صدر مرسی نے ملک کو ایک نیا آئین دیا، لبرل اور سیکولر حلقوں نے اسے ملک میں اسلامی شریعت نافذ کرنے کی ایک کوشش قرار دیا۔ جب صدر مرسی نے اسے قوم سے منظوری دلانے کے لئے ریفرنڈم منعقد کرانے کا اعلان کیا، اس پر سیکولر حلقے سڑکوں پر آ گئے، ان کا مطالبہ تھا کہ ریفرنڈم منسوخ کیا جائے۔  دوسری جانب ججز نے اس ریفرنڈم کے انعقاد کے موقع پر نگرانی کے آئینی فرائض ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ انہی دنوں(8دسمبر2012 کو) فوج کی طرف سے پہلا بیان سامنے آیا جس میں عزم ظاہر کیا گیا کہ وہ حالات کو گھمبیر نہیں بننے دے گی۔آنے والے دنوں نے اس فوجی بیان کی معنویت کو پوری طرح کھول کر رکھ دیا۔

٭فوجی جرنیلوں کے عزائم:

 اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے دوران فوجی جرنیلوں کی طرف سے جاری ہونے والے بیانات سے واضح طور پر محسوس ہوا کہ وہ مصری صدر کے خلاف اس احتجاج پر خاصے خوش اور پرجوش ہیں۔ پھر ایک روز مسلح افواج کے سربراہ General Abdul Fattah al-Sisi نے تمام سیاسی قوتوں کو کسی تصفیے تک پہنچنے کے لیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم دیا اور کہا کہ اگر وہ کسی نتیجے تک نہیں پہنچتے تو پھر انھیں مستقبل کے لیے فوج کے نقشہ راہ کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس میں ہر کوئی شامل نہیں ہو گا۔  جنرل Al-Sisiنے صدر مرسی کے خلاف ریلیوں کو عوام کی رائے کا ایک بے مثال مظاہرہ قرار دیا۔ جب اپوزیشن کے مظاہرین سڑکوں پر تھے، فوجی ہیلی کاپٹر ان کے اوپر پروازیں کرتے اور مظاہرین پر مصری پرچم نچھاور کرتے رہے۔اس موقع پر ڈاکٹر مرسی فوجی عزائم کے سامنے ایک مضبوط دیوار بن کر کھڑے ہوئے۔ انھوں نے فوج کی طرف سے کسی قسم کے الٹی میٹم کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہ وہ قانونی طور پر ملک کے صدر منتخب ہوئے ہیں اور کسی بھی دبائو کے نتیجے میں مستعفی نہیں ہوں گے اور وہ حکومت مخالف مظاہروں کے باوجود اپنی آئینی ذمہ داریاں نبھاتے رہیں گے۔انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ مرتے دم تک اپنے آئینی عہدے کا دفاع کریں گے۔

٭امریکا اور اسرائیل کا ردعمل:

مصر کے سیاسی بحران پر امریکہ کی طرف سے سامنے آنے والا ردعمل بھی خاصا معنی خیز ہے۔ امریکی حکام واضح طور پر اپوزیشن کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال رہے تھے۔  اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے صدر مرسی پر زور دیا کہ وہ اپنے خلاف مظاہرے کرنے والوں کے تحفظات کا خیال رکھیں۔ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی مصری صدر کو مشورہ دیا کہ وہ عوام کے مطالبات تسلیم کریں۔  اسرائیل نے بھی ان مظاہروں کے بعد سکھ کا سانس لیا، وہ خطے میں سٹیٹس کو کا حامی تھا، تاہم عرب بہار نے اسے خاصا پریشان کر دیا تھا۔  عرب انقلابات کے نتیجے میں خطے میں اسرائیل کی اجارہ داری مکمل طور پر ختم ہو کے رہ گئی تھی۔ اس کے لئے حسنی مبارک جیسے حکمران ہی مفید تھے جو اپنے اقتدار کے نشے میں ہی مست رہتے تھے۔

٭جرنیل مافیا نے اقتدار پھر سنبھال لیا:

تین جولائی 2013ء کو مصر ایک بار پھر اسی فوج کے جرنیلوں کے ہاتھ میں واپس چلا گیا،  نئے مقتدر جرنیلوں نے حسنی مبارک ہی کے متعین کردہ ایک جج عدلی منصور (سپریم کورٹ) کو ملک کا عبوری صدر بنایا،  یہ انہی ججز میں شامل تھا جنھوں نے حسنی مبارک کے ساتھی احمد شفیق کو صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی  حالانکہ حسنی مبارک کا اقتدار ختم ہونے کے بعد مقتدر فوجی کونسل نے جو قانون نافذ کیا تھا،  اس میں بھرپور عوامی دبائو کے نتیجے میں یہ شق بھی شامل تھی کہ حسنی مبارک کے کسی بھی ساتھی کو صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہ ہو گی۔

٭فوجی انقلاب کے خلاف صدر مرسی کی جماعت کا ردعمل:

جرنیل مافیا کی مداخلت پر حکمران جماعت اخوان المسلمون نے سخت مزاحمت کا اعلان کیا  اور کہا کہ وہ منتخب رہنما کے خلاف فوجی بغاوت کی صورت میں ٹینکوں کے سامنے کھڑے ہوں گے اور شہادت کو ترجیح دیں گے۔ نتیجتاً انھوں نے قاہرہ کے الرابعہ سکوائر میں بڑے پیمانے پر دھرنا دیا۔ اس موقع پر اخوان المسلمون کے مرشد عام (سربراہ) ڈاکٹر محمد بدیع نے فوج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم ملک کی سب سے بڑی سیکیورٹی طاقت ہو  لیکن تم نے یہ طاقت اخوان المسلمون کے نہتے لوگوں پر آزمائی ہے۔  تمہارا کام سرحدوں پر ملک کی حفاطت کرنا ہے اور ہمارا کام یہ کہ ملک کو ایک منتخب قیادت دیں۔  آپ واپس لوٹ جاو اور ہمارے منتخب صدر کو صدارت واپس لوٹا دو، تم ہمیں ٹینکوں سے ڈراتے ہو ، تو سن لو یہ ناممکن ہے۔ ہم تہماری گولیوں اور ٹینکوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔ اخوان المسلمون نے اپنے مذکورہ بالا عزائم کو سچ ثابت کر دیا۔ اس کے 2600 سے زائد ارکان فوج کی گولیوں کا نشانہ بنے، ان میں سے بہت سی خواتین اور بچے بھی تھے ۔

٭اور پھر مرسی کے مخالفین پچھتانے پر مجبور ہو گئے

صدر مرسی کے خلاف مظاہروں میں شریک افراد کو بعد ازاں شدید پشیمانی کا احساس ہونے لگا کہ ان کی وجہ سے حسنی مبارک کے ساتھیوں کا دور واپس آ گیا اور ایک بار پھر آمریت قائم ہو گئی۔ ڈاکٹر مرسی کے خلاف احتجاجی مہم چلانے والی تمرد (باغی) تحریک جنرلAl-Sisiکی مقرر کردہ عبوری حکومت کے ابتدائی دنوں میں احتجاج پر مجبور ہو گئے۔  انھوں نے عبوری صدر عبدلی منصور کے اعلان کردہ آئینی اعلامیے کو آمرانہ قرار دے کر مسترد کیا۔ اور کہا کہ ہم فوج کے مقرر کردہ عبوری صدر کے حوالے ہو جائیں گے۔

  دوسری طرف Jamia Al-Azhar کے علما بھی صدر مرسی کے خلاف اقدامات پر تقسیم ہو گئے۔ Dr. Hassan Shafi, Advisor of Sheikh Azazir کا بیان بھی سامنے آیا کہ ڈاکٹر محمد مرسی کے خلاف روز اول سے ہی سازشیں تیار کی جا رہی تھیں اور مارشل لا بھی ان میں ایک تھا۔ انھوں نے ہزاروں اخوانیوں کو شہید کرنے کے واقعہ کے بعد Reconciliation (مصالحتی) کمیٹی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا تھا  اور کہا: اخوان کے لوگوں کو گھر بھیجنے کا یہ طریقہ انتہائی غیر انسانی تھا۔ سب سے عجیب بات کہ ان پر دوران نماز فجر گولیاں پرسائی گئیں۔ تشدد اور دبائو سے اسلام پسندوں کو گھر بھیجنا، اس سے بڑی بھول اور کوئی نہیں۔ انھوں نے فوجی جرنیلوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: تم فوجی صرف موقع کی تاڑ میں رہتے ہو اور صرف اقتدار کے بھوکے ہو۔ ان کا کہنا تھا: لوگوں میں خوف اور دبائو کی ایسی کیفیت کم سے کم ڈاکٹر محمد مرسی کے ہوتے ہوئے نہیں تھی۔  اس وقت رائے کی آزادی تھی۔  انھوں نے کہا کہ  25 جنوری کے انقلاب کے بعد دیکھا جائے تو مصر نہیں بدل سکا۔ ایک بار پھر وہی تشدد پسند اور کرپٹ عناصر اقتدار پر قبضہ کر چکے ہیں اور عوام کے ووٹوں کو ذرا حیثیت نہیں دی گئی۔  ان کا کہنا تھا: دنیا کو اب دیکھ لینا چاہیے کہ تشدد پسند اور دہشت گرد مذہب نہیں بلکہ برداشت سے دور لبرل طبقہ ہے۔

صدر مرسی کے خلاف عالمی طاقتوں کارندوں کا کردار:

صدر مرسی کے خلاف شروع دن سے دو کردار متحرک رہے، ایک Mohammad Al-Baradi تھے اور دوسرے Umro Musa ۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حسنی مبارک کے بعد امریکا نے مصر کی سیاست پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لئے ان دونوں شخصیات کو متحرک کیا۔ انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے سابق سربراہ Mohammad Al-Baradi کے بارے میں عمومی تاثر ان کے امریکی وفادار ہونے کا ہے۔ وہ ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف امریکی مہم میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے۔ انہی کے عہد میں انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی عراق میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کے امریکی جھوٹ کا حصہ بنی،  بعد ازاں جب امریکی قیادت میں غیر ملکی افواج نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تو معلوم ہوا کہ عراق میں کہیں سے بھی ایسا کوئی ایک ہتھیار بھی برآمد نہیں ہوا۔  پھر امریکی قیادت نے بھی مان لیا کہ اس نے عراق پر جنگ مسلط کرنے کے لئے جھوٹ بولا تھا۔

وہ حسنی مبارک کے خلاف انقلابی تحریک کے دوران میں ملک میں اترے تھے اور اپنے آپ کو متبادل رہنما کے طور پر پیش کرنے لگے تاہم لوگوں نے انھیں انقلابی تحریک کی قیادت بھی نہیں کرنے دی۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے آنے والے دنوں میں صدارتی انتخاب میں شرکت کا ارادہ بھی ختم کر دیا حالانکہ انھوں نے سب سے پہلے صدارتی امیدوار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ Umro Musa عرب لیگ کے سابق سیکرٹری جنرل ہیں۔ انھیں بھی ڈاکٹر محمد مرسی کے مقابل صدارتی انتخاب میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔  انھیں مشرق وسطی میں امریکی کھیل کا حصہ سمجھا  جاتا  رہا۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل بننے سے پہلے وہ بھی سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے اہم ترین ساتھی اور وزیر  خارجہ رہے ہیں۔ اپنے مہروں کے پٹ جانے کے بعد امریکا، اسرائیل اور دیگر مغربی طاقتوں کے لئے حسنی مبارک کے بعد قائم ہونے والا سیٹ اپ قابل برداشت نہیں تھا۔  چنانچہ انھوں نے اپوزیشن تحریک کا بھرپور ساتھ دیا، صدر مرسی کا تختہ الٹنے والی فوج کے سر پر دست شفقت رکھا۔ ذرا! دیکھئے کہ جنرلAl-Sisi کو اقتدار سنبھالنے کے بعد ہر قدم پر کیسے مغربی امداد ملی۔

No comments.

Leave a Reply