کشمیر پر پاکستان کا بدلتا موقف

زبانی کلامی طور پر تو پاکستان اہل کشمیر کے ساتھ کھڑا ہے مگر عملی طور پر وہ بھارت کے ساتھ بندھا ہوا ہے

زبانی کلامی طور پر تو پاکستان اہل کشمیر کے ساتھ کھڑا ہے مگر عملی طور پر وہ بھارت کے ساتھ بندھا ہوا ہے

نیوز ٹائم

مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم کوئی نئی بات نہیں رہی۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ بھارتی فوج کے مظالم کا شکار ہو کر مقبوضہ وادی میں شہادتیں نہ ہوتی ہوں یا زخمی نہ ہوتے ہوں۔ اس کے باوجود پوری دنیا میں بھارتی مظالم کے خلاف ایک سناٹا ہے۔ اب تو پاکستان نے بھی بھارتی مظالم پر چپ سادھ لی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے مسئلہ کشمیر پر بھارتی موقف کو تسلیم کر لیا ہے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام پر بھارتی فوج کے طریقے کو درست مان لیا ہے۔ پاکستان کا ہمیشہ سے کشمیر کے معاملے پر اصولی موقف رہا ہے کہ یہ کشمیری عوام کا بنیادی حق ہے کہ انہیں اس فیصلے کا حق دیا جائے کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں، پاکستان یا بھارت کے ساتھ۔ اس معاملے پر اقوام متحدہ نے بھی متفقہ قرارداد منظور کی ہوئی ہے جسے بھارت نے بھی تسلیم کیا ہے کہ کشمیر میں استصواب رائے ہونا چاہیے۔ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی موقف کشمیر کے معاملے میں نرم پڑتا جا رہا ہے۔ انتہائی نرم الفاظ میں کشمیر پر پاکستانی موقف کو اب منافقت پر مبنی ہی کہا جا سکتا ہے۔ زبانی کلامی طور پر تو پاکستان اہل کشمیر کے ساتھ کھڑا ہے مگر عملی طور پر وہ بھارت کے ساتھ بندھا ہوا ہے۔

اس کی ایک واضح مثال سلامتی کونسل میں غیر مستقل رکن کی نشست پر بھارت کی حمایت ہے۔ بھار ت کا ٹریک ریکارڈ اقلیتوں کے حوالے سے انتہائی شرمناک ہے۔ امریکا تک نے ایک عرصے تک گجرات میں خونیں مسلم کش فسادات کی بنا پر امریکا میں مودی کے داخلے پر پابندی عائد کی ہوئی تھی۔ خواتین کی آبروریزی کے حوالے سے بھارت کا نمبر پہلا ہے۔ مسلمانوں کا ذکر ایک طرف خود ہندو اقلیتیں بھی ہندو دہشت گردوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں بھارت کا سلامتی کونسل کے لیے انتخاب مشکل ہی ہونا چاہیے تھا۔ اس میں حکومت پاکستان کو اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنے کی ضرورت تھی کہ وہ ووٹر ممالک میں اصل بھارتی چہرے کو سامنے لاتی، اقوام متحدہ میں این جی اوز کو اس سلسلے میں متحرک کرتی۔

پاکستانی حکومت نے یہ سب کرنے کے بجائے جس کی امید کشمیری مزاحمت کار اور پاکستانی عوام سب کر رہے تھے، منافقت کا رویہ اختیار کرتے ہوئے بھارت کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ یعنی جب بھی سلامتی کونسل میں کشمیر کا مسئلہ پیش ہو گا، بھارت کو یہ موقع حاصل ہو گا کہ وہ سلامتی کونسل کے پلیٹ فارم سے ہی اس کے خلاف لابنگ کرے اور اسرائیل کے تعاون سے امریکا، فرانس، برطانیہ اور روس کو بھی اس معاملے میں بھارت کی طرفداری پر مجبور کرے۔ یہ پاکستان کی سفارتی سطح پر ناکامی ہے کہ اس نے بھارت کے خلاف مزاحمت کرنے کے بجائے اس کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔ اب دوست ممالک سے کس منہ سے کہا جائے گا کہ وہ پاکستان دشمن بھارت کی مخالفت کریں۔ بہتر ہو گا کہ پاکستان اپنی کشمیر پالیسی پر نظرثانی کرے اور کشمیر پر دوٹوک موقف اپنائے۔ اگر پاکستان ہی اپنے موقف سے دستبردار ہو گیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ کشمیر پر بھارت کا قبضہ درست ہے۔ بزرگ کشمیری رہنما سعید علی گیلانی نے کہا تھا کہ ظلم و ستم کا سامنا تو ہم کر رہے ہیں، پاکستان کم از کم اپنے موقف پر تو قائم رہے۔a

No comments.

Leave a Reply