مغرب کے 9 بڑے جرنیل، جن کی صلاحیتوں کو آج بھی تسلیم کیا جاتا ہے

مغرب کے 9 بڑے جرنیل

مغرب کے 9 بڑے جرنیل

نیوز ٹائم

مغرب کے ان 9 بڑے جرنیلوں کا ذکر کرتے  ہیں جنہوں نے اپنے اپنے دور میں بہترین جنگی حکمت عملی کے ذریعے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے۔ آج کے جدید مشینی دور میں جنگ و جدل کی پالیسیاں اور طور طریقے بدل چکے ہیں۔ اس حوالے سے بعض اوقات وہ لوگ اور ادارے فیصلے کرتے ہیں جو فوجی حکمت عملیوں سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے، یوں جرنیلوں کا کردار واضح نہیں ہوتا۔ آج دنیا کی بڑی سے بڑی فوج جو ہتھیاروں سے لیس ہوتی ہے اور اس کے پاس بہترین جنگی حکمت عملی بھی ہوتی ہے،  وہ چیزوں کو منطقی انداز میں دیکھتی ہے، وہ اشیا کی نقل و حمل کے بارے میں بہت علم رکھتی ہے،  مگر وہ صرف ایک شخص کی غیر معمولی قابلیت سے شکست کھا جاتی ہے اور وہ شخص ہوتا ہے مخالف فوج کا جرنیل۔

فریڈرک دی گریٹ:

پروشیا کا فریڈرک دوئم جدید جنگ و جدل کا طالب علم تھا اور 18ویں صدی کے آخر میں اس نے جدید جنگ کے حوالے سے فوجیوں کی رہنمائی کرنا شروع کر دی۔ اس نے آسٹریا کے خلاف مسلسل جنگیں لڑیں۔ آسٹریا اس وقت رومی سلطنت کی بڑی طاقت تھا۔ فریڈرک لڑائیوں میں فوجیوں کی براہ راست قیادت کرتا تھا۔ فریڈرک ایک ایسی قوت کا نام تھا جسے آج بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔

جارج ایس پیٹن:

جارج پیٹن دوسری جنگ عظیم میں اتحادی قوتوں کی سب سے متنازع شخصیت تھا۔ ہو سکتا ہے کہ پیٹن یہ سمجھتا ہو کہ وہ دور قدیم کے ان عظیم جنگجوئوں میں سے ایک ہے جنہوں نے دوبارہ جنم لیا۔ وہ آئرن ہاور کا استاد بھی رہا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران اس نے جرمن فوجیوں کی یلغار کا اسی انداز سے جواب دیا۔ بعض امور میں اس کا کردار متنازع رہا لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اس جرنیل نے یورپ میں اتحادیوں کی فتح میں اہم کردار ادا کیا۔

جون آف آرک:

فرانس کی اس جنگجو لڑکی نے صرف 19 برس کی عمر میں انگلینڈ کے خلاف کئی جنگیں لڑیں۔ کسان گھرانے کی یہ لڑکی دعویٰ کرتی تھی کہ اسے خدائی احکامات آتے ہیں۔ فرانس کا بادشاہ چارلس دوئم جنگ ہار چکا تھا لیکن اس نوجوان خاتون نے فرانسیسیوں میں ایک نیا جذبہ پیدا کیا۔ آخرکار اسے انگریز فوجیوں نے پکڑ لیا اور زندہ جلا دیا۔ وہ بلا کی ذہین تھی اور اس کی تقریباً ہر جنگی حکمت عملی کامیاب ہوئی۔

جولیس سیزر:

جولیس سیزر کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ وہ قابل ترین رومی جرنیل تھا تو یہ مبالغہ نہ ہو گا۔اس نے رومی سلطنت کو وسیع کرنے کے لیے کئی علاقوں کو اپنے قبضے میں لیا۔ اس کی جنگی پالیسیاں ابھی تک فوجی اکیڈیمیوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ سیاسی اور ذاتی حوالے سے اس سے غداریاں کی گئیں اور اس کی زندگی کا خاتمہ ہو گیا۔

جارج واشنگٹن:

امریکا کی انقلابی طاقتیں جب آزادی کیلئے برطانوی راج کے خلاف برسرپیکار تھیں تو اس وقت جارج واشنگٹن امریکا کا سب سے قابل رہنما تھا۔ اگرچہ واشنگٹن کو اس کے ماتحتوں کی مکمل حمایت حاصل تھی جن میں اہم ترین بینڈرک آرنلڈ تھا جو ایک نہایت زیرک شخص تھا لیکن واشنگٹن کی فوجی صلاحیتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ واشنگٹن نے امریکی فوجیوں کو متحد کیا۔ اگر آرنلڈ غداری نہ کرتا تو آج اس کا نام امریکا میں بڑے احترام سے لیا جاتا۔ واشنگٹن نے ٹرنٹن اور یارک ٹائون میں فتح حاصل کی۔ اسے دوبار امریکیوں نے اپنا صدر منتخب کیا۔

رابرٹ ای لی:

رابرٹ ای لی کو امریکا کی خانہ جنگی کے حوالے سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس نے کنفیڈریشن کی حامی قوتوں کو کئی مقامات پر شکست دی۔ وہ اپنے مخالفوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچاتا لیکن اس کے اپنے فوجیوں کو کم سے کم نقصان ہوتا۔

صلاح الدین ایوبی:

صلیبی جنگوں کے حوالے سے سب سے نمایاں نام صلاح الدین ایوبی کا ہے۔ اس نے یورپی حملوں کو بڑی کامیابی سے روکا۔ اس نے شام اور مصر کسی بڑی مشکل کے بغیر فتح کیا اور بیت المقدس کو آزاد کرایا۔ اس کے حریف بھی اس کا بڑا احترام کرتے تھے۔ چونکہ وہ یورپی سرزمین پر بھی سرگرم رہا اس لیے اس کا نام اس فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

ہنی بال بارکا:

روم جس مخالف سے سب سے زیادہ خوف کھاتا تھا وہ ہنی بال بارکا تھا۔ اس جرنیل کو اس کے والد نے اسی مقصد کے لیے بڑا کیا تھا کہ وہ رومیوں کے خلاف لڑے۔ وہ جبری امن کا حامی تھا۔ اس نے پرانے جنگی حربے ترک کر کے جدید طریقے اختیار کیے۔ اس نے بہت کامیابیاں حاصل کیں اور ہزاروں رومیوں کو موت کی نیند سلا دیا لیکن آخر کار اسے سسپیو افریکانس کے ہاتھوں شکست ہوئی۔

نپولین بونا پارٹ:

نپولین نے وہ فرانسیسی سلطنت قائم کی جو میڈرڈ سے ماسکو اور اوسلو سے قاہرہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے بہت سے ممالک فتح کیے لیکن آخر کار واٹرلو میں اسے شکست ہو گئی۔ اسے انگریزوں نے ایک جزیرے میں قید کر دیا جہاں کچھ عرصے بعد اس کی موت واقع ہو گئی۔

No comments.

Leave a Reply