امن کا پیاسا: افغانستان اور طالبان

افغان پیس کانفرنس ، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کئی مذاکرات ہوئے لیکن کسی بھی نتیجے بغیر ختم ہوتے رہے

افغان پیس کانفرنس ، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان کئی مذاکرات ہوئے لیکن کسی بھی نتیجے بغیر ختم ہوتے رہے

نیوز ٹائم

افغان طالبان کا طرزِ زندگی اور ان کی ریکارڈیڈ گورننس کے انداز سے خود افغانوں کا ایک بڑا طبقہ اور باہر کی دنیا کتنا بھی اختلاف کرے،  یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل اور اب تو مکمل ثابت شدہ ہے کہ طالبان ملک کی غالب بڑی سیاسی طاقت ہے۔ اتنی ہی بڑی دوسری حقیقت یہ ہے کہ طالبان، افغانستان کے شدید اندرونی انتشار سے ردعمل کے طور پر نکلی ہوئی ایک سیاسی طاقت ہے۔ قبائلی افغانستان کی سیاسی تنظیموں کے اتحاد کا معجزہ آنجہانی سوویت یونین کی افغانستان پر جارحیت اور قبضے کا فوری ردعمل تھا۔ دسمبر 1979ء کے بعد جوں جوں افغانستان کی Sovietization ہوتی گئی ویسے ویسے رنگ و نسل و زبان سے بالاتر افغانستان کی کثیر الثقافت سیاسی قبائل پر مشتمل افغان مجاہدین کا اتحاد بھی متحد و منظم ہوتا گیا،  ان کے فروعی اختلاف نے روسی افواج کے قبضے کو ختم کرنے کے لئے اپنے متحدہ و مشترکہ پلیٹ فارم سے اعلانیہ جہاد کو متاثر نہ ہونے دیا اور بڑے منظم انداز میں اپنے اپنے زیر اثر علاقوں میں جہادی ساتھیوں اور مکمل معاونت سے جہاد جاری رکھا۔ یہ ہرگز ہرگز امریکہ یا یورپ کی جنگ نہ تھی بلکہ اس آزاد دنیا کے ساتھ پاکستان ہی نہیں پورا عالمِ اسلام سوویت افواج کے افغانستان سے انخلا کا سفارتی و سیاسی حوالے سے ہامی تھا۔ اس 10 سالہ جنگ کے دوران اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاسوں کا ریکارڈ اس امر کا ناقابل تردید ثبوت فراہم کرتا ہے کہ فریقین، حامیوں اور مخالفین کے حوالوں سے دنیا کی تقسیم کیا اور کیسے تھی۔ بہت واضح اور کھلا عالمی موقف (ماسوائے وارسا پیکٹ میں شامل ممالک) اور بھارت و بھوٹان کے یہ ہی تھا کہ سوویت قابض فوجیں افغانستان سے نکل کر اس کی خودمختاری کو بحال کریں۔ انخلا کے بعد خود مختاری کیونکر بحال ہو گی؟ اس سے کوئی تعلق نہ تھا اور کوئی اندازہ نہ کر سکا کہ انتقال اقتدار کی صورت کیا اور کتنی محال ہو گی۔ موضوع پر جنرل اسمبلی کے آخری اجلاس میں بھوٹان نے بھی بھارتی پریشر سے آزاد ہو کر عالمی موقف کے حق میں ہی ووٹ دیا۔

روسی افواج کے انخلا سے دو سال قبل یہ سوال پاکستان میں ضرور اٹھنے لگا تھا کہ انخلا کے بعد کابل میں کس کی حکومت کیسے بنے گی؟ مغربی ممالک کو یہ فکر لاحق ہو رہی تھی کہ بددستور روسی اثر کی حکومت برقرار نہ رہے۔ پاکستان بھی بجا طور پر ایک دوست کا متمنی تھا یا کم از کم ماضی کی حکومتوں کی طرح پاکستان مخالف حکومت نہ ہو،  ایران کے اپنے تحفظات تھے، اس کا تعلق اتنا ضرور تھا کہ فارسی اسپیکنگ آبادی کی نمائندگی حکومت میں ضرور ہونی چاہئے  جبکہ افغان جہاد کے سرگرم فیبرک میں گہری اسلامی سوچ کے حامل واضح طور پر اپنے سیاسی غلبے کا عندیہ دے رہے۔ روس، افغانستان سے نکلنے سے قبل کابل میں اپنے ہی زیر اثر چھوڑی حکومت کو مستحکم رکھنے کے لئے کابل کو جتنی بڑی چھائونی میں تبدیل کر سکتا تھا، اس کا اہتمام کر کے ہی نکلا جسے اکھاڑنے کے لئے مجاہدین نے کچھ عرصہ تو منظم اور متحدہ لڑائی لڑی، ابھی حتمی کامیابی یقینی نہیں ہوئی تو ہر پارٹی میں اقتدار میں آنے کی اپنی طمع اتنا بڑھی کہ روسی اثر کی آخری حکومت کو ختم کر کے یہ خود خانہ جنگی کا شکار ہو گئے۔ متفقہ اور مستحکم حکومت کے قیام کے لئے جہاد افغانستان کے عالمی معاونین اور اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان کی کوششیں بھی نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئیں، گویا روسی قبضہ ختم کرانے کے لئے 16 لاکھ افغانوں کی شہادتوں کے بعد اقتدار کی ہوس میں شرکت اقتدار کے حوالے سے تمام فارمولے سے امن اور استحکام نہ لا سکے اور متفقہ حکومت کا قیام ناممکن ہو گیا تو ملک بھر میں محلوں سے وہ عوامی طاقت برآمد ہوئی جس کا نام طالبان رکھا گیا۔ جنہوں نے ناصرف حکومت قائم کر لی بلکہ افغانستان میں مثالی امن قائم کر کے دکھایا۔ پاکستان اس چکر میں کیونکر پڑتا کہ طالبان کا طرز زندگی اور قدامت پسندی کی سوچ پاکستانیوں سے ہم آہنگ نہیں۔ طالبان، پاکستان کو اس لئے اہمیت دیتے ہیں کہ پاکستان، افغانستان میں امن کا حقیقی متمنی ہے۔ افغانستان کے بعد ہم ہی اتنی بڑی عالمی جنگ کے متاثر تھے جہاں 45 لاکھ افغان پناہ لئے ہوئے تھے جو آج بھی 30 لاکھ ہیں لہذا پاکستان کا طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ یقینا 100 فیصد درست تھا کہ پورا افغانستان امن ہی کا پیاسا تھا جیسے آج ہے۔ واضح رہے کہ بینظیر حکومت نے ہی نہیں خود محترمہ نے بطور وزیر اعظم طالبان کے حکومت سنبھالنے پر شادیانے بجائے تھے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ تسلیم نہ کر کے امریکہ اور برطانیہ کے سکھ کا سانس لینے کے عندیے واضح تھے۔ تاہم طالبان کے انتہا پسندانہ اقدامات سے بیزاری کا اظہار بھی مسلسل ہوا۔

9/11نے افغانستان کو پھر ایک داخلی جنگ میں جھونک دیا جس میں غیر ملکی افواج طالبان اور پاکستان کے وزیرستان میں جمع ہوئے دنیا بھر کے جہادیوں سے لڑنے لگیں۔ آج افغانستان پھر امن کا پیاسا ہے۔ غالب اور اٹل سیاسی طاقت جس کو پاکستان نے اس کے قیام کے ساتھ ہی سمجھ لیا تھا اور دنیا نے آج مانا ہے پھر اپنے مطلوب کردار کو غیر ملکی افواج نے انخلا سے مشروط کر رہی ہے۔ اس بار کابل کو چھائونی کے طور چھوڑ کر جانے کا ہولناک تجربہ نہیں دہرایا جا سکتا۔ افغان انتشار نے 30 سال سے آزاد ہونے والی سنٹرل ایشین ریاستوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے،  پھر پاکستان کو کہ کب یہاں امن ہو تو ہم اپنی تعمیر و ترقی کی طرف متوجہ ہو سکیں۔ لیکن افغان بھائی جو گلیوں اور محلوں میں ہیں، صرف طالبان ہی نہیں ہر دھڑا، ہر طبقہ یاد رکھیں کہ ان کے باہمی اتحاد اور ہم آہنگی کے بغیر ان کے ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ پاکستان بھی کثیر الثقافت ہے، ہم کوئی زیادہ متحدہ قوم بھی نہیں لیکن ہمارے اتفاق ہمارے آئین اور ایک مخصوص درجے پر امن و اتحاد کو ہم نے قائم دائم رکھا ہوا ہے۔ افغان، امریکہ اور پاکستان کے ہی منتظر نہ رہیں حقیقت پسند بن کر انٹرا ڈائیلاگ کی طرف بھی آئیں جس کا مظاہرہ انہوں نے گزشتہ ماہ بھوربن میں افغان پیس کانفرنس میں کیا۔

No comments.

Leave a Reply