ایران میں امریکی مصنوعات کی فروخت

امریکا کی کمپنیاں پابندی کے باوجود ایرانیوں سے مال بٹور رہی ہیں

امریکا کی کمپنیاں پابندی کے باوجود ایرانیوں سے مال بٹور رہی ہیں

نیوز ٹائم

امریکا اور ایران کے درمیان کشیدگی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ ملک ایسے سخت دبائو میں ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ حالات 1980-88ء میں ایران، عراق جنگ سے زیادہ ابتر ہیں۔ صدر روحانی کے لیے اس وقت سیاسی صورت حال سازگار نہیں ہیں۔ انہوں نے ملک میں سیاسی قوتوں اور عوام سے امریکا پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ ان انتہائی کشیدہ حالات اور پابندیوں کے باوجود ایران میں امریکی مصنوعات کی بھرمار ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ تہران کے ریستوران اور ہوٹل ایسے مناظر سے بھرے نظر آتے ہیں کہ لوگ امریکی اشیا خورونوش کھاتے پیتے ہیں۔ ایک امریکی برانڈ کولڈ ڈرنک، امریکی کیچپ، ہائنز اور دیگر کمپنیوں کی مصنوعات آج کے ایران میں باآسانی دستیاب ہیں۔ بازار امریکی مصنوعات کپڑے اور جوتوں سے بھری ہیں۔ ٹباسکو ٹائمز شوز اور دیگر کمپنیوں کی مصنوعات عام فروخت ہو رہی ہیں۔ لیکن کمپنیاں اس بارے میں کسی سوال کا جواب نہیں دے رہی ہیں۔ سوائے مشروبات کی کمپنیوں کے جو تفصیلات اعداد و شمار کے مطابق بتاتی ہیں۔

2016 میں تیار کی گئی ایک رپورٹ پورو مانیٹر کے مطابق ایرانی مشروبات کی مارکیٹ میں مشہور امریکی کولڈڈرنک کا حصہ 28 فیصد جبکہ ایک دوسرے مشہور امریکی کولا کا حصہ 20 فیصد کے قریب ہے۔ مرغن کھانوں اور کباب کے بعد امریکی کولا کا پینا ایرانی عوام کی روزمرہ زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ ان کمپنیوں کے لیے یہ مشروب مقامی ایرانی کمپنیاں تیار کرتیں ہیں۔ یہ کمپنیاں امام رضا فائونڈیشن سے منسلک ہیں جو کہ ایک طرح سے حکومت کا ہی حصہ ہیں۔ امریکی کولڈ ڈرنک کمپنی کا کہنا ہے کہ ایران میں ان کے مشروبات کی فروخت امریکا پابندیوں کے خلاف نہیں۔ ہمیں اس کام کے لیے محدود نوعیت کی اجازت ہے۔ کمپنی کی ایران میں کوئی ملکیت نہیں اور نہ ہی ٹھوس اثاثے ہیں۔ ایران میں امریکی مصنوعات مقامی ڈسٹری بیوٹرز کے توسط سے فروخت کی جا رہی ہیں۔

2015 میں ایران اور 6 عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والا جوہری معاہدہ گذشتہ برس بے یقینی کا شکار ہو گیا تھا جب صدر ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے الگ ہوتے ہوئے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ان امریکی پابندیوں کا سب سے بڑا نشانہ ایرانی تیل کی برآمدات کا مکمل خاتمہ کرنا تھا۔ عالمی تجارت میں امریکا ایک اہم ترین ملک ہے۔ وہ اپنی اس اہمیت اور پوزیشن کو سیاسی طور پر استعمال کرنا جانتا ہے۔ چنانچہ اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے استعمال کرتا رہتا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ایران کے بازاروں اور ہوٹلوں میں پھر بھی امریکی مصنوعات نظر آتی ہیں۔ اور کثیر تعداد میں ایرانی انہیں استعمال کر رہے ہیں یعنی جہاں امریکی کمپنیوں کے مفادات کی بات ہو وہاں پابندیاں ڈھیلی ہی رہتی ہیں۔

یہ بات بھی بڑی اہم ہے کہ  2015ء میں جوہری معاہدے کے وقت ایران میں ایک امریکی ڈالر 32 ہزار ایرانی ریال کے برابر تھا  اور اب ایرانی ریال کی قیمت حد سے زیادہ کم ہو کر ایک لاکھ 30 ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ افراطِ زر کی شرح 27 فیصد اور بے روزگاری کی سطح 12 فیصد تک جا پہنچی ہے  جو اس بات کی علامت ہے کہ امریکی معاہدے ہمیشہ امریکی مفادات کو ہی تحفظ دیتے ہیں۔ ٹرمپ ایران پر دبائو بڑھا رہا ہے۔ ایران نے اس دبائو سے نکلنے کے لیے جوابی کارروائیاں شروع کی ہیں۔ امریکا کے یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد اب ایران کا کہنا ہے کہ اگر فریقین معاہدے میں طے کی گئی شرائط کو نافذ نہیں کریں گے تو وہ بھی جوہری معاہدے کی پاسداری ختم کرتے ہوئے یورینیم افزودہ کرنا شروع کر دے گا اور آزادانہ طور پر اپنے جوہری پروگرام پر عمل کرے گا۔

ایران کے اس اعلان کے فورا بعد چند گھنٹوں کے اندر امریکی وزیر خارجہ نے برطانیہ کا دورہ کیا کیونکہ یورپی ممالک معاہدے کو ختم کرنا نہیں چاہتے۔ روس اور چین بھی اس معاہدے پر عملدرآمد روکنے کا ذمہ دار امریکا کو قرار دیتے ہیں لیکن ٹرمپ انتظامیہ اس معاہدے کے مکمل خاتمے سے دلچسپی رکھتی ہے۔ ایران نے پچھلے مہینے امریکا کے ساتھ کشیدگی کے خاتمے کے لیے ایک متبادل منصوبہ پیش کیا ہے جس کے مطابق ایران جوہری معاہدے میں امریکی واپسی کے اسرار کے بغیر پابندیوں کی نرمی کے شرط پر کشیدگی ختم کرنے کے لیے آمادہ ہے۔ ایران چاہتا ہے کہ تیل اور بین الاقوامی بینکنگ کی خدمات پر عائد پابندیاں ختم کر دی جائیں۔ جس کے بعد ایران اپنے جوہری اقدامات میں کمی کرنے کا سوچ سکتا ہے۔

آبنائے ہرمز جوہری معاہدہ کے بعد ایک دوسرا اہم معاملہ ہے تیل کی باحفاظت ترسیل کے لیے آبنائے ہرمز پر جنگ مسلط نہیں کی جا سکتی۔ اس وقت اگرچہ وہاں کشیدگی ہے لیکن کوئی ملک بھی وہاں سنجیدگی کے ساتھ حالات خراب کرنے کے بارے میں نہیں سوچ سکتا کیونکہ یہاں سے دنیا بھر میں استعمال ہونے والے تیل کا پانچواں حصہ لے جایا جاتا ہے۔ امریکا عموما چھری اور گاجر والا کھیل ہی کھیلتا ہے۔ لہذا ایران کو سبق سکھانے کے اعلان کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ ایران میں اقتدار کی تبدیلی نہیں چاہتے اور ایران موجودہ قیادت کے ساتھ ہی ایک عظیم ملک بن سکتا ہے۔ بسں وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کا ارادہ ترک کر دے۔

امریکا اور ایران کی ایک دوسرے کو دی جانے والی دھمکیاں بعض دفعہ کچھ ایسی تصویر بھی پیش کرتی ہیں کہ جیسے یہ کوئی نورا کشتی ہو رہی ہے۔ یہ نورا کشتی ہے یا کچھ اور جو بھی ہے اس نے ایک عام ایرانی شہری کی زندگی کو شدید متاثر کیا ہے،  جن کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف لگائی گئی پابندیاں کمر توڑ ہیں۔ امریکی صدر ایران کے خلاف اقتصادی جنگ کر رہا ہے۔ اس جنگ نے ایرانی عوام کو ہڈیاں توڑنے والی مہنگائی میں مبتلا کر دیا ہے۔

آج ایران کے انقلاب کو 40 سال گزر گئے۔ 1971 میں شاہ ایران اور ان کی اہلیہ فرح دیبا نے تخت جمشید میں شاہی محل کے کھنڈرات میں ایران کی قدیم بادشاہ کی ڈھائی ہزار سالہ سالگرہ کے موقع پر ایک تقریب میں شرکت کی تھی اور اپنی بادشاہت کو اسی کا تسلسل قرار دیتا تھا۔ امریکا شاہ ایران کا حلیف تھا لیکن اس نے انقلاب کے بعد ایران کی ناراضگی کے خیال سے شاہ کو اپنے مالک میں پناہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک عرصہ ایران اور امریکا دو الگ الگ سمتوں میں سفر کرتے رہے لیکن اس کے باوجود ان کا وزن ایک ساتھ ایک پلڑے میں محسوس ہوتا تھا۔

 اس وقت ایران اور امریکا کی تمام تر ناراضگی اور دوری کے باوجود ان کے درمیان صورت حال جنگ کی جانب جانا ممکن نہیں ہے۔  امریکا سختی در سختی کرتا رہے گا اور دھمکیوں پر دھمکیاں سنائی دیتی رہیں گیں لیکن معاملات پھر اسی نکتے پر آ کر ٹھہر جائیں گے جسے توازن کہا جاتا ہے۔ ہاں ایک بات ضرور ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ ایران کو ایک ایسا معاہدہ کرنے پر مجبور کرنا چاہتی ہے جس میں جوہری پروگرام کے علاوہ بیلسٹک میزائل کا پروگرام بھی شامل ہو کیونکہ بقول امریکا کے اس بیلسٹک میزائل پروگرام سے مشرق وسطی (اسرائیل) کو خطرہ ہے۔

No comments.

Leave a Reply