اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف درخواست کی سماعت کیلئے 2 رکنی بینچ تشکیل دے دیا

مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی سزا کے خلاف دائر درخواست کی سماعت 18 ستمبر کو کرے گا

مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی سزا کے خلاف دائر درخواست کی سماعت 18 ستمبر کو کرے گا

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف درخواست کی سماعت کے لیے 2 رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔ مذکورہ بینچ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل ہو گا  جو مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی سزا کے خلاف دائر درخواست کی سماعت 18 ستمبر کو کرے گا۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سزا سنانے والے جج ارشد ملک کے ویڈیو لیک تنازع کے بعد سے ان کی سزا کے خلاف یہ پہلی سماعت ہو گی۔

یاد رہے کہ ایک پریس کانفرنس میں ویڈیو دکھاتے ہوئے مریم نواز نے بتایا تھا کہ ویڈیو میں نظر آنے والے جج نے فیصلے سے متعلق ناصر بٹ کو بتایا کہ ‘نواز شریف کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، فیصلے کے بعد میرا ضمیر ملامت کرتا رہا اور جس کے بعد رات کو ڈراونے خواب آتے ہیں، لہذا نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں زیادتی ہوئی ہے۔ ارشد ملک وہی جج ہیں، جنہوں نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید بامشقت اور بھاری جرمانے کی سزا سنائی تھی جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں انہیں بری کر دیا تھا۔

دوسری جانب جج ارشد ملک نے بیان حلفی میں دعوی کیا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے نمائندوں کی جانب سے انہیں العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں نواز شریف کے حق میں فیصلہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے رشوت کی پیشکش اور سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی، بعد ازاں عہدے سے استعفی دینے پر بھی مجبور کیا گیا۔ بیان حلفی میں جج ارشد ملک نے کہا تھا کہ جب فلیگ شپ ریفرنس اور العزیزیہ ریفرنس کے ٹرائل میں دلائل کا مرحلہ جاری تھی تو ایک مرتبہ پھر مہر جیلانی اور ناصر جنجوعہ نے مجھ سے رابطہ کیا اور اس مرتبہ وہ نواز شریف کی جانب سے مالی پیشکش بھی ساتھ لائے تھے۔

جج ارشد ملک نے کہا کہ فروری 2019 ء میں خرم بٹ اور ناصر بٹ سے ملاقات کے دوران ناصر بٹ نے پوچھا کہ کیا ناصر جنجوعہ نے آپ کو ملتان والی ویڈیو دکھا دی جس پر میں نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا کہ کس حوالے سے بات کر رہے ہیں۔ ناصر بٹ نے کہا کہ آپ کو چند دن میں ویڈیو دکھا دی جائے گی، بعد ازاں میاں طارق اور ان کے بیٹے نے مجھ سے ملاقات کی جن سے میری جان پہچان اس وقت سے تھی جب میں 2000ء سے 2003ء تک ملتان میں بطور ایڈیشنل اور سیشن جج تعینات تھا۔ یہ بات مدِ نظر رہے کہ ویڈیو اسکینڈل میں ملوث طارق محمود کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا لیکن دیگر 3 ملزمان ناصر جنجوعہ، مہر غلام جیلانی اور خرم کو ایف آئی اے کی تحویل میں دیا گیا تھا۔ بعد ازاں ریمانڈ مکمل ہونے پر عدالت میں ملزمان کو پیش کیا گیا اور تحقیقی افسر نے موقف اختیار کیا کہ تینوں ملزمان کے خلاف شواہد نہیں ملے، عدالت چاہے تو انہیں رہا کر دے جس پر عدالت نے ان کی رہائی کا فیصلہ سنا دیا۔

No comments.

Leave a Reply