امریکی صدر سے اختلافات کے باعث قومی سلامتی کے مشیر ‘فارغ’

قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن

قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن

واشگنٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن سے کو ان کے عہدے سے فارغ کر دیا۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا کہ ‘میں نے جان بولٹن سے ان کا استعفی مانگا تھا، جو انہوں نے مجھے دے دیا ہے’۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے گزشتہ رات جان بولٹن سے کہا تھا کہ ان کی سروسز وائٹ ہائوس کو مزید درکار نہیں ہیں۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ان کی جگہ نئے قومی سلامتی کے مشیر کا اعلان آئندہ ہفتے کر دیا جائے گا۔

امریکی صدر کی جانب سے جان بولٹن کو اس طرح عہدے سے ہٹائے جانے کے حوالے سے تفصیلات تو نہیں بتائی گئیں تاہم انہوں نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ جان بولٹن کے ‘موقف’ سے انہیں ‘اختلاف’ تھا۔ بعد ازاں جان بولٹن نے عہدے سے فارغ کیے جانے کی رپورٹس کو مسترد کر دیا۔ خیال رہے کہ گزشتہ دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے افغان طالبان سے امن مذاکرات معطل کرنے کے اعلان نے سب کو حیران کر دیا تھا۔ واضح رہے کہ تجربہ کار جان بولٹن عراق میں جنگ اور دیگر خارجہ پالیسز سے متعلق لیے گئے فیصلوں کے حوالے سے متنازع شخصیت رہے ہیں۔ علاوہ ازیں انہیں ایران، وینزویلا اور دیگر متنازع معاملات میں مداخلت کے حوالے سے وائٹ ہائوس میں اہم طاقتور شخصیت کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ امریکی صدر کے ٹوئٹ سے کچھ ہی دیر قبل وائٹ ہائوس کے پریس آفس نے کہا تھا  کہ جان بولٹن کچھ ہی دیر بعد امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو کے ہمراہ دہشت گردی کے مسئلے پر پریس کانفرنس کریں گے۔ دوسری جانب جان بولٹن نے کہا کہ انہیں عہدے سے ہٹایا نہیں گیا ہے بلکہ وہ خود مستعفی ہونا چاہتے تھے۔ جان بولٹن نے سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کیا کہ ‘میں نے گزشتہ رات مستعفی ہونے کی پیشکش کی تھی جس پر امریکی صدر نے کہا تھا کہ کل بات کریں گے۔

متعدد امریکی عہدیداروں کو ہٹایا گیا:

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ انہوں نے کسی امریکی عہدیدار کو اختلافات کے باعث عہدے سے ہٹایا ہو،  وہ اس سے قبل متعدد عہدیداروں کے ساتھ ایسا کر چکے ہیں۔ مارچ 2018 ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن کو ان کے عہدے سے برطرف کرنے کا اعلان کیا تھا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ریکس ٹلرسن کی جگہ وہ سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ڈائریکٹر مائیک پومپیو کا نام دیں گے، جنہیں بعد میں یہ عہدہ دے دیا گیا تھا۔

اس سے قبل امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹلرسن نے 20 جولائی کو پینٹاگون میں ایک اجلاس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو احمق کہا تھا اور مستعفی ہونے کی دھمکی دی تھی۔ بعد ازاں عالمی میڈیا کی رپورٹ میں دعوی کیا گیا تھا کہ واقعے کے بعد نائب صدر مائیک پینس نے ٹلرسن سے بات کی تھی اور انہیں کم سے کم ایک سال تک اپنا عہدہ نہ چھوڑنے پر زور دیا تھا۔ نائب امریکی صدر کے علاوہ اس وقت کے ہوم لینڈ سیکیورٹی سیکریٹری جان کیلی اور ڈیفنس سیکریٹری جیمس میٹس نے بھی ٹلرسن کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تعلقات کو بہتر کرنے کی تجویز دی تھی۔

خیال رہے کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اور سیکریٹری آف اسٹیٹ کے درمیان قطر اور شمالی کوریا کے معاملے پر بھی اختلافات منظر عام پر آئے تھے۔ بعد ازاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق سیکریٹری دفاع جیمز میٹس کو مشرق وسطیٰ اور افغانستان کے حوالے سے پالیسیوں میں اختلاف پر عہدے سے برطرف کر دیا تھا اور اس کے بعد سے 7 ماہ تک کسی بھی عہدیدار کو مستقل بنیادوں پر یہ ذمے داری نہیں سونپی گئی۔ بعد ازاں جولائی 2019ء کو امریکی سینیٹ نے سابق فوجی مارک ایسپر کو سیکریٹری دفاع مقرر کرنے کی تصدیق کی تھی۔ یہ پینٹاگون کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ اتنے طویل عرصے تک کوئی بھی شخص سیکریٹری دفاع کی ذمے داریاں مستقل بنیادوں پر نبھانے کے لیے موجود نہ تھا جہاں اس دوران امریکا کو ایران سے تنائو اور افغانستان سے انخلا میں مشکلات جیسے مسائل کا سامنا رہا۔

No comments.

Leave a Reply