امریکی صدر ٹرمپ افغان بریگزٹ کر سکتے ہیں، مطلب افغانستان سے فوجیں بنا کسی معاہدے کے اچانک نکال سکتے ہیں

امریکی صدر افغان بریگزٹ کر سکتے ہیں، مطلب افغانستان سے فوجیں بنا کسی معاہدے کے اچانک نکال سکتے ہیں

امریکی صدر افغان بریگزٹ کر سکتے ہیں، مطلب افغانستان سے فوجیں بنا کسی معاہدے کے اچانک نکال سکتے ہیں

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

طالبان کے ساتھ دوحہ میں 10 ماہ تک جاری رہنے والے مذاکرات سے اچانک نکلنے کے امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر بعض ماہرین اب یہ بھی سوچنے لگے ہیں کہ امریکی صدر افغان  Brexit کر سکتے ہیں، مطلب افغانستان سے فوجیں بنا کسی معاہدے کے اچانک نکال سکتے ہیں۔ تاہم بعض ماہرین کے مطابق صدر ٹرمپ، افغانستان سے فوجیں نکال کر اپنی بالادستی کبھی ختم نہیں کرنا چاہیں گے۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے جنوبی ایشیائی امور کے ماہر اور مڈل ایسٹ انسٹیٹیوٹ میں پاکستان سینٹر کے ڈائریکٹر Marvin G. Weinbaum‏ نے کہا کہ مذاکرات کی اچانک معطلی، صدر ٹرمپ کی غیر متوقع فیصلہ سازی کا حصہ ہے۔  یہ بالکل غیر یقینی فیصلہ تھا۔ نہیں لگتا کہ صدر نے اپنے مشیروں یا تھنک ٹینک کے ماہرین کی آرا کے پیش نظر مذاکرات معطل کیے ہوں۔ بہرحال اس بات پر یقین کے اسباب ہیں کہ طالبان کے ساتھ طے پانے والا مجوزہ معاہدہ، جتنی تفصیل سامنے آئی ہے،  افغانستان میں امریکی فوجوں کی موجودگی کو یقینی نہ بنا سکا، جیسا کہ وہاں ضرورت تھی کہ انسداد دہشت گردی کے امریکی ماہرین اور خفیہ کے اہلکار وہاں موجود رہتے۔ یہ معاہدہ کسی جنگ بندی کو بھی یقینی نہیں بناتا۔ صرف امریکی انخلا کے راستوں کو محفوظ بناتا ہے، باقی معاملات افغانوں پر چھوڑ دیے گئے کہ وہ خود جنگ بندی میں توسیع کریں۔

Marvin G. Weinbaum‏ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ بہرحال طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے خواہش مند تھے۔ وہ اپنی انتخابی مہم میں اپنے لوگوں کو بتانا چاہتے تھے کہ میں نے اپنے فوجیوں کو باحفاظت افغانستان سے نکال لیا ہے اور ایک طویل جنگ کو انجام تک پہنچایا ہے۔ Marvin G. Weinbaum‏ کے مطابق صدر ٹرمپ اب بھی یہی چاہیں گے کہ جنگ ختم ہو۔ مذاکرات معطل ہوئے ہیں، ختم نہیں۔  طالبان اور امریکہ اب بھی کسی معاہدے پر پہنچ سکتے ہیں Marvin G. Weinbaum‏ کہتے ہیں کہ مسٹر ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے لیے (ان کے الفاظ میں) افغان Brexit بھی کر سکتے ہیں۔  ٹرمپ اب بھی کسی معاہدے کا خیر مقدم کریں گے تاکہ وہ اس کو اپنی انتخابی مہم میں لے جا سکیں۔ وہ سیاسی برتری بنا کسی معاہدے کے فوجی نکال کر بھی کر سکتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو ہم اسے افغان بریگزٹ کہیں گے۔ تاہم اس کے اثرات سنگین ہوں گے۔

جلیل عباس جیلانی امریکہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں اور آج کل واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک کے ساتھ وابستہ ہیں۔ وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہتے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات کا خاتمہ تمام فریقوں اور خطے کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ پاکستان نے افغانستان میں امن عمل میں بہت کوششیں کی ہیں۔ ناکامی کی صورت میں طالبان کے علاوہ مختلف عسکریت پسند گروپ فعال ہو جائیں گے، جیسے ISIL، القاعدہ وغیرہ اور اس کا پاکستان، ایران اور پورے خطے کو بہت نقصان ہو گا۔

کامران بخاری سینٹر فار گلوبل پالیسی کے ساتھ وابستہ تجزیہ کار ہیں۔ وہ وائس آف امریکہ کے ساتھ انٹرویو میں اس امکان کو رد کرتے ہیں کہ صدر ٹرمپ بریگزٹ کر سکتے ہیں یعنی بنا معاہدے افغانستان سے نکل آئیں۔  واشنگٹن میں دو جماعتی سیاست کا پارہ عروج پر ہے۔ صدر ٹرمپ ایسا بالکل نہیں کریں گے۔ وہ غلطیاں ضرور کرتے ہیں خاص طور پر ٹوئٹر پر اچانک کچھ بھی بول دینے سے۔ لیکن ایسا نہیں کہ ان کے پاس کوئی لائحہ عمل (سٹریٹجی) نہیں ہے۔ اگر افغانستان سے فوج ہٹ گئی تو امریکہ کے پاس کوئی لیوریج نہیں رہے گا ۔

No comments.

Leave a Reply