امریکی جاسوس برسوں تک روسی صدر کی رہائش گاہ میں ملازم رہا

امریکی جاسوس برسوں تک روسی صدر کی رہائش گاہ میں ملازم رہا

امریکی جاسوس برسوں تک روسی صدر کی رہائش گاہ میں ملازم رہا

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

روسی امریکی تعلقات کو اس بات سے دھچکا لگا ہے کہ ایک مبینہ امریکی جاسوس دو سال پہلے تک کریملن میں کام کرتا رہا تھا۔ روس نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ سی آئی اے کا یہ مبینہ جاسوس صدر پیوٹن کی سرکاری رہائش گاہ میں کام کرتا تھا۔ روس میں ماسکو اور امریکا میں واشگٹن سے منگل 10 ستمبر کو ملنے والی مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق امریکی ذرائع ابلاغ نے اپنی رپورٹوں میں دعوی کیا ہے کہ امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے کریملن میں کام کرنے والے ایک جاسوس کو روسی صدر پیوٹن کے قریبی حلقوں تک رسائی حاصل تھی۔ اس امریکی جاسوس کو دو سال پہلے 2017ء میں اس لیے کریملن سے نکال لیا گیا تھا کہ تب اس کی اصل شناخت سامنے آ جانے کے خدشات پیدا ہو گئے تھے۔

دوسری طرف روسی دارالحکومت میں صدر پیوٹن کی کریملن کہلانے والی سرکاری رہائش گاہ کی طرف سے منگل کے روز تصدیق کر دی گئی کہ یہ مبینہ امریکی جاسوس ماسکو میں روسی صدارتی دفتر کی انتظامیہ کے لیے کام کرتا رہا تھا۔ کریملن کے ترجمان Dmitry Peskovنے کہا، ”اس شخص کو صدر پیوٹن تک کوئی براہ راست رسائی حاصل نہیں تھی اور وہ ایک نچلے درجے کا سرکاری اہلکار تھا۔ روسی نیوز ایجنسی ” TASS”  نےDmitry Peskovکے اس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اس شخص کو کئی سال پہلے نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی کریملن کے ترجمان نے مزید کہا، ”اس شخص کی ملازمت کسی سینیئر سرکاری درجے کی پوزیشن نہیں تھی۔ Dmitry Peskovنے یہ بھی کہا کہ انہیں ایسی کوئی اطلاع نہیں کہ یہ شخص امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے لیے کام کرتا رہا تھا۔

‘جاسوس کے بے نقاب ہو جانے کا خطرہ:

Dmitry Peskovنے یہ باتیں آج ماسکو میں اس پس منظر میں کہیں کہ امریکی نشریاتی ادارے سی این این اور اخبار نیو یارک ٹائمز کی رپورٹوں کے مطابق یہ مبینہ جاسوس کریملن میں سی آئی اے کے لیے کام کرتا تھا، جسے 2017ء  میں اس کی اصلیت سامنے آ جانے کے خوف اور اس کی سلامتی کو درپیش خطرات کے باعث پیدا ہونے والے خدشات کے باعث وہاں سے نکال لیا گیا تھا۔ امریکی میڈیا کا یہ دعویٰ چونکہ روس کے لیے سیاسی اور سفارتی سطح پر شرمندگی کا باعث سمجھا جا سکتا تھا،  اس لیے کریملن کے ترجمان نے اس بارے میں کہا، امریکی میڈیا میں کیے جانے والے یہ تمام دعوے کہ اسے جلدی سے نکال لیا گیا تھا،  اور اسے کس سے بچانے کی کوشش کی گئی تھی، یہ سب ایسی کہانیاں ہیں، جو من گھڑت اور محض زیب داستاں کے لیے ہیں۔ ان روسی دعوئوں کے برعکس سی این این اور نیو یارک ٹائمز نے اپنی رپورٹوں میں کہا ہے کہ سی آئی اے کا یہ اثاثہ (اس کے لیے کام کرنے والا مخبر) کئی سال تک روسی حکومتی ڈھانچے کے اندر موجود تھا  اور اسے کریملن میں اعلی حکام تک رسائی حاصل تھی۔

نیو یارک ٹائمز کے مطابق اس امریکی جاسوس کو روسی صدر پیوٹن تک ملنے والی رسائی اتنی اہم تھی کہ اس نے اس شخص کو ‘سی آئی اے کے قیمتی ترین روسی اثاثوں میں سے ایک بنا دیا تھا۔ جریدے نیو یارک ٹائمز کے مطابق اس جاسوس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے  کہ اس نے مبینہ طور پر امریکی انٹیلی جنس اداروں کو صدر پیوٹن کے اس حکم نامے سے متعلق شواہد بھی مہیا کیے تھے،  جس میں مبینہ طور پر 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ امیدوار ہیلری کلنٹن کے مقابلے میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کا ذکر کیا گیا تھا۔ امریکی میڈیا رپورٹوں مطابق سی آئی اے نے اپنے اس اثاثے کو کریملن سے نکالنے کی کوشش 2016ء میں اس وقت کی تھی،  جب امریکی صدارتی الیکشن میں روس کی مبینہ مداخلت کی بہت سی تفصیلات سامنے آ گئی تھیں  اور یوں یہ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ کریملن میں امریکا کا یہ جاسوس پرخطر انداز میں بے نقاب بھی ہو سکتا تھا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس جاسوس نے 2016ء میں اپنے ‘کریملن سے نکلنے سے انکار کر دیا تھا۔ تاہم ایک سال بعد جب 2017ء میں سی آئی اے نے اس پر دوبارہ دبائو ڈالا، تو اس نے یہ تجویز قبول کر لی تھی۔

خفیہ معلومات سے متعلق ٹرمپ کی ‘لاپروائی’:

امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے بتایا ہے کہ وائٹ ہائوس کے ذرائع کے بقول اس امریکی جاسوس کو کریملن سے نکالنے کی وجوہات میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی کابینہ کے ارکان کی وجہ سے پیدا ہونے والے تحفظات بھی تھے۔ ان ذرائع کے مطابق ٹرمپ اور ان کی کابینہ نے خفیہ معلومات کو محفوظ رکھنے سے متعلق مبینہ لاپروائی کا مظاہرہ کیا تھا۔ ان میں سے ایک واقعہ 2017ء میں اس وقت پیش آیا تھا جب صدر پیوٹن سے ایک نجی ملاقات کے دوران  صدر ٹرمپ نے ایک مترجم کے تحریری نوٹس بھی زبردستی اپنے قبضے میں لے لیے تھے۔ دوسری طرف وائٹ ہائوس کی پریس سیکرٹری Stephanie Grisham نے سی این این کی اس حوالے سے رپورٹ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے،  ”سی این این کی رپورٹنگ نہ صرف یہ کہ غلط ہے بلکہ اس میں یہ امکان بھی پایا جاتا ہے  کہ اس کی وجہ سے انسانی جانیں خطرے میں پڑ جائیں۔ اس کے علاوہ خود سی آئی اے نے بھی ان امریکی میڈیا رپورٹوں کی تردید کی ہے۔

No comments.

Leave a Reply