امریکی قانون سازوں کا ڈونلڈ ٹرمپ سے کشمیر میں مداخلت کا مطالبہ

امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے تعلقات خارجہ کے رکن، سینیٹر ٹم کین

امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے تعلقات خارجہ کے رکن، سینیٹر ٹم کین

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

بھارت کی جانب سے کشمیر کے الحاق کے یکطرفہ فیصلے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے امریکی قانون سازوں نے ٹرمپ حکومت پر زور دیا ہے  کہ بھارت سے کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی اجازت دینے کا مطلبہ کیا جائے۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق ورجینینا کے سابق گورنر اور امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے تعلقات خارجہ کے رکن، سینیٹر ٹم کین نے کہا کہ یہ حکومت کامعاملہ ہے اور حکومت کو اس میں دلچسپی دکھانی چاہیے۔

دوسری جانب ورجینیا سے سے تعلق رکھنے والے ڈیموکریٹ کے رکن کانگریس اور سوئٹزر کے سابق امریکی سفیر ڈان بیر کا کہنا تھا کہ جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے میں اس سے بہت مایوس ہوں اور جو کچھ بھارتی وزیر اعظم نریند مودی نے کیا میں اس سے سخت اختلاف کرتا ہوں۔ نریندر مودی کو دنیا میں ایک اور ظالم رہنما سے ملاتے ہوئے ڈان بیئر کا کہنا تھا کہ آپ نے دیکھا دنیا بھر کے ظالم رہنما یہی کر رہے ہیں لوگوں کو تقسیم کرنا، ایک مذہب کو دوسرے مذہب کے خلاف کرنا، ایک سے دوسرے کا مقابلہ کرنا۔ دونوں قانون سازوں نے 11 ستمبر کے حملوں کی یاد میں منعقدہ تقریب کے بعد صحافیوں سے بات کی۔ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں، بھارت اور پاکستان دونوں کی جانب سے کشمیر میں ریفرنڈم کے وعدوں کا حوالہ دیتے ہوئے ڈان بیئر کا کہنا تھا کہ سالوں پہلے اس بات کا فیصلہ ہو گیا تھا کہ کشمیر میں مستقبل کا فیصلہ عوام کے ووٹ سے کیا جائے گا جو کہ نہیں ہوا۔ انہوں نے بھارت کی جانب سے کشمیر کے الحاق کے یکطرفہ فیصلے کو مسترد کر دیا اور اسے نامناسب فوجی دراندازی قرار دیا۔

دوسری جانب سینیٹر ٹم کین نے کہا کہ کشمیر ان اہم ترین مسائل میں سے ایک تھا جس پر امریکی قانون سازوں نے گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد واپس آ کر حکومت کی توجہ دلائی۔ سینیٹر ٹم کین نے بتایا کہ سینیٹ کا رکن ہونے کی حیثیت سے انہوں نے امریکی حکومت سمیت متعدد حکومتی نمائندوں کے ساتھ ملاقات طے کر رکھی ہے تاکہ معاملات کو سمجھا جا سکے۔ یہ دونوں بیانات واشنگٹن میں اس بات کے بڑھتے ہوئے احساس کے عکاس ہیں کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہو سکتی ہے  لیکن جو کچھ کشمیر میں ہو رہا ہے وہ جمہوری نہیں، یہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ بین الاقوامی روایات اور معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔

No comments.

Leave a Reply