تیونس میں دوسرے آزادانہ صدارتی انتخابات

انتخابات جولائی میں تیونس کے 92 سالہ صدر محمد الباجی قائد السبسی کے انتقال کے باعث ہوئے

انتخابات جولائی میں تیونس کے 92 سالہ صدر محمد الباجی قائد السبسی کے انتقال کے باعث ہوئے

تیونس ۔۔۔ نیوز ٹائم

دو ہزار گیارہ کی عرب بہار (اسپرنگ) کے بعد تیونس میں ہونے والے دوسرے صدارتی انتخابات کے سلسلے میں تفرقہ انگیز مہم کے بعد بڑی تعداد میں عوام اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے گھروں سے نکلے۔ انتخابات میں حصہ لینے والے نمایاں امیدواروں میں میڈیا سے تعلق رکھنے والے نبیل کروئی جو  منی لانڈرنگ کی تحقیقات کے سلسلے میں جیل میں ہیں،  عبد الفتح مورو پہلی دفعہ حصہ لینے والی اسلام پسند جماعت کے رہنما، اور تیونس کے وزیر اعظم یوسف شاہد شامل ہیں۔ ووٹ ڈالنے کے لیے تیونس بھر میں بنائے گئے تقریبا 13 ہزار پولنگ بوتھ کو صبح 8 بجے کھول دیا گیا اس موقع پر ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے آئے ہوئے یوسف شاہد کا کہنا تھا کہ انہیں اس بہترین موقع پر فخر ہے۔ تیونس کے وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ دنیا دیکھ رہی ہے، آج رات یا کل تک تیونس بہتر ہاتھوں میں ہو گا۔ خیال رہے کہ تیونس میں گرتی ہوئی معیشت اور مہنگائی میں اضافے کے باعث وزیر اعظم کی مقبولیت میں خاصی کمی آئی ہے۔ ووٹنگ کے ابتدائی اوقات میں جب صحافیوں نے پولنگ اسٹیشنز کا دورہ کیا تو وہاں بڑی عمر کے افراد کی اچھی خاصی تعداد موجود تھی تاہم جوانوں کی تعداد کم تھی۔ اس موقع پر ووٹ ڈالنے کے لیے آئے ہوئے ایک 60 سالہ شخص کا کہنا تھا کہ قومی جشن میں حصہ لینے اور جمہوریت کی فتح کے موقع پر نوجوان کہاں ہیں؟ یہ ان کا مستقبل ہے۔ تاہم تیونس کے الیکشن کمیشن کے مطابق دوپہر ایک بجے ووٹنگ ٹرن آئوٹ 16.3 تک پہنچ گیا تھا۔ خیال رہے کہ ان انتخابات کے سلسلے میں انتہائی زبردست مہم چلائی تھیں جس میں سیاسی اختلافات کے بجائے شخصیات کے درمیان چپقلش دیکھنے میں آئی۔

حالیہ انتخابات جولائی میں تیونس کے 92 سالہ صدر محمد الباجی قائد السبسی کے انتقال کے بعد ہوئے،  جن کی بیوہ بھی گزشتہ روز اتوار کی صبح چل بسیں تھیں۔ یاد رہے کہ محمد الباجی قائد السبسی کو 2011 ء میں ہونے والی بغاوت کے بعد منتخب کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں سابق آمر زین العابدین بن علی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ خیال رہے کہ انتخابات کے پیشِ نظر جولائی سے عوامی رائے عامہ کی اشاعت پر پابندی ہے  لیکن ایک چیز بڑی واضح سامنے آئی کہ بہت سے ووٹرز بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے سے ناواقفیت کی بنا پر ووٹ دینے کے حوالے سے تذبذب میں نظر آئے۔ تاہم کچھ پرامید افراد نے ذاتی رنجشوں کی وجہ سے بدنام سیاسی اشرافیہ سے خود کو الگ رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ مخالف نظریے کو ختم کرنے کی کوشش کی۔

No comments.

Leave a Reply