ٹوکیو دنیا کے محفوظ ترین شہروں میں سرِفہرست

ٹوکیو کو دنیا کے محفوظ ترین شہروں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا

ٹوکیو کو دنیا کے محفوظ ترین شہروں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا

بنکاک ۔۔۔ نیوز ٹائم

سنگاپور میں پالیسی سازوں، کاروباری رہنمائوں اور ماہرینِ صنعت کے درمیان ہونے والی گفتگو میں ٹوکیو کو دنیا کے محفوظ ترین شہروں کی فہرست میں شامل کر دیا گیا۔ دنیا کا ہر شہر آبادی اور رقبے کے لحاظ سے پھیلتا رہتا ہے لہذا حکومتوں، نجی شعبے اور شہریوں میں رابطے اور سیکورٹی معاملات میں ایک توازن برقرار رکھنا بے حد ضروری ہے۔ دنیا کے محفوظ ترین شہروں میں جاپان کا دارالحکومت ٹوکیو سرِفہرست ہے جبکہ ٹاپ 10 شہروں میں ایشیا پیسیفک خطے کے 6 شہر بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب بھارت کے دو بڑے شہروں ممبئی اور دہلی بھی اِس فہرست میں شامل ہیں،  یہ دونوں شہر محفوظ شہروں کی فہرست میں بالترتیب 45 ویں اور 52 ویں درجے پر موجود ہیں جو پانچ برِاعظموں کے 60 ممالک میں سے ہیں۔ این ای سی کارپوریشن کے گلوبل سیفٹی ڈویژن اور حکومتی تعلقات کے رہنما Walter Lee نے سربراہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  اس بات پر زور دیا کہ  محفوظ شہر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ سائبر اور جسمانی دونوں سطح پر اپنے شہریوں کی ڈیجیٹل شناخت کو محفوظ بنایا جائے۔

Walter Lee نے کہا کہ پینل بحث میں ہم محفوظ شہر بنانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بارے میں بات کر رہے تھے اور ہماری بحث ٹیکنالوجی اور دیگر عناصر کا منصفانہ مرکب تھا جو شہر کو محفوظ بنائے گا۔ انہوں نے کہا تکنیکی ماہر ہونے کی حیثیت سے میں اِس بات کی حمایت کرتا ہوں کہ شہروں کو محفوظ بنانے کے لیے ٹیکنالوجی کو ایک آلے کے طور پر استعمال کیا جائے۔ این ای سی ایشیا پیسیفک کے سی ای او Tetsuro Akagi کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی نیٹ ورکنگ، کمپیوٹنگ اور مصنوعی انٹلیجنس سے متعلق ٹیکنالوجیز میں بہتری لاتے ہوئے ایشیا پیسیفک کی  communities اور معاشرے میں تعاون کرنے پر بھرپور یقین رکھتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوام کے ارد گِرد بہت سے مسائل موجود ہیں، جس کے لیے سب سے اہم جزو حفاظت اور خود پائیداری ہے  لہذا ہم این ای سی سمیت کمپیوٹنگ، اے آئی یا نیٹ ورکنگ کی ٹیکنالوجیز کی بنیاد پر یہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم ایشیا پیسیفک معاشرے میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک محفوظ اور مستحکم معاشرے کو برقرار رکھنے کے لئے پوری دنیا کے شہروں کی سلامتی کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔

No comments.

Leave a Reply