افغان صدارتی انتخاب، ووٹرز کا ٹرن آئوٹ ماضی کے مقابلے میں انتہائی کم، انتخابی نتائج کا اعلان 18 اکتوبر کو متوقع

افغانستان میں25 فیصد سے بھی کم لوگوں نے ووٹ ڈالے جو گزشتہ تینوں صدارتی انتخاب کے مقابلے میں سب سے کم ہے

افغانستان میں25 فیصد سے بھی کم لوگوں نے ووٹ ڈالے جو گزشتہ تینوں صدارتی انتخاب کے مقابلے میں سب سے کم ہے

کابل ۔۔۔ نیوز ٹائم

افغان انتخابی عمل میں فراڈ، انتخابی مہم پر حملوں اور طالبان کی دھمکیوں کے زیر اثر صدارتی انتخاب میں ماضی کے مقابلے میں ووٹ ڈالنے والوں کی شرح انتہائی کم رہی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گزشتہ روز صدارتی انتخاب 2019 ء کے پہلے مرحلے کا عمل مکمل ہوا جس میں آئندہ 5 برسوں کے لیے صدر کا انتخاب ہونا تھا۔ صدارتی انتخاب میں موجودہ صدر اشرف غنی اور ملک کے چیف ایگزیکیٹو عبداللہ عبداللہ کے درمیان مقابلہ ہے۔ جنگ زدہ افغانستان 3 کروڑ 50 لاکھ نفوس پر مشتمل آبادی والا ملک ہے جہاں 96 لاکھ لوگوں رائے دہندگان کی حیثیت سے رجسٹرڈ ہوئے  جبکہ ملک بھر میں 4 ہزار 900 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے۔ اس ضمن میں افغانستان کے الیکشن کمیشن نے ابتدائی اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ملک بھر میں قائم نصف پولنگ اسٹیشنز سے موصول ہونے والے شماریات سے معلوم ہوتا ہے  کہ محض 11 لاکھ افراد نے اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ٹرن آئوٹ کا تناسب یہ ہی رہا تو اس کا مطلب ہو گا کہ 25 فیصد سے بھی کم لوگوں نے ووٹ ڈالے جو گزشتہ تینوں صدارتی انتخاب کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔اس ضمن میں بتایا کہ 2014 ء کے صدارتی انتخاب میں مجموعی طور پر ووٹرز کا ٹرن آئوٹ 50 فیصد رہا تھا۔

دوسری جانب افغان حکام نے صدارتی انتخاب کے انعقاد کو طالبان کی شکست قرار دیا کیونکہ طالبان کوئی بڑا حملہ نہیں کر سکے۔ علاوہ ازیں افغانستان انالسٹ نیٹ ورک کے مطابق انتخابی عمل کے دوران ملک بھر میں 400 سے زائد حملوں کی اطلاعات موصول ہوئیں۔ طالبان نے دعوی کیا کہ انہوں نے 531 حملے کیے جبکہ وزارت داخلہ نے بتایا کہ دشمنوں نے 68 پرتشدد کارروائیاں کیں۔ اگرچہ حکام نے بتایا کہ صدارتی انتخاب میں مختلف حملوں میں 5 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار ہلاک ہوئے تاہم ماضی میں ایسی مثال ملتی ہے جس میں حکام نے انتخاب کے دن ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد کو ظاہر نہیں کیا تھا بعد ازاں جب حقائق منظر عام پر آئے تو حملوں اور ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ تھیں۔ واضح رہے کہ جنگ زدہ افغانستان میں طالبان کے حملوں کے خطرات کے باوجود صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ کا آغاز مقررہ وقت پر ہوا جو 2 گھنٹے کی توسیع کے بعد شام 7 بجے تک بلاتعطل جاری رہا تھا۔ دوسری جانب کابل، جلال آباد اور قندھار سمیت دیگر علاقوں میں قائم پولنگ اسٹیشنز پر بم دھماکوں کے نتیجے میں کم از کم 2 افراد کے ہلاک اور 27 سے زائد کے زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں۔

 افغانستان کے الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ گزشتہ روز ہونے والے صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کا اعلان 18 اکتوبر سے قبل کر دیا جائے گا۔ الیکشن کمیشن کے ایک کمشنر مولانا عبد اللہ نے گفتگو میں کہا کہ الیکشن کمیشن نتائج مرتب کرنے میں مصروف ہے۔ خبر رساں ادارے ”اے پی” کی رپورٹ کے مطابق انتخابات کے حتمی نتائج 7 نومبر کو سامنے آئیں گے اگر اس میں کسی امیدوار کو حتمی کامیابی حاصل نہ ہو سکی تو انتخابات کا ایک اور دور ہو سکتا ہے۔ خیال رہے کہ افغانستان کی آبادی 3 کروڑ 50 لاکھ سے زائد ہے۔ افغانستان میں ووٹ دینے کے لیے 18 سال عمر ہونا ضروری ہے۔ قطر کے نشریاتی ادارے ”الجزیرہ” کی رپورٹ کے مطابق اگر نتائج اسی طرح رہے تو مجموعی ٹرن آئوٹ 25 فیصد سے بھی کم ہو گا۔  جو 2001 ء میں طالبان کی حکومت ختم ہونے کے بعد ہونے والے چاروں صدارتی انتخابات میں کم ترین ٹرن آئوٹ ہو گا۔

الجزیرہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ صدارتی انتخابات 2014 ء میں ہوئے تھے۔  اس وقت ملک میں ایک کروڑ 20 لاکھ رجسٹرڈ ووٹر تھے جن میں سے 60 فیصد نے حق رائے دہی استعمال کیا تھا اور 70 لاکھ سے زائد افراد کے ووٹ ڈالنے کے نتائج سامنے آئے تھے۔ انتخابی مبصرین کا کہنا ہے کہ ووٹنگ ٹرن آئوٹ کم ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں امن عامہ کی صورت حال، افغان امن مذاکرات، الیکشن کی اہمیت کا اندازہ نہ ہونا اور 2018 ء کے پارلیمانی انتخابات میں جعل سازی کے الزامات سرفہرست ہیں۔ واضح رہے کہ انتخابات میں مجموعی طور پر 14 امیدوار میدان میں تھے تاہم ان میں موجودہ صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبد اللہ عبد اللہ اور سابق وزیر اعظم گلبدین حکمتیار کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے افغانستان سے متعلق مشن نے کہا ہے کہ تمام فریقین انتخابات کے بعد کے پیریڈ میں ذمہ داری کا مظاہرہ کریں جبکہ مشن نے انتخابی اداروں پر بھی زور دیا ہے کہ مقررہ وقت میں ووٹوں کی گنتی اور دیگر کام مکمل کیے جائیں۔

No comments.

Leave a Reply