امریکا سے وطن واپسی پر وزیراعظم کے طیارے میں خرابی کی کہانی

 وزیر اعظم عمران خان کی نیو یارک سے وطن روانگی اور واپسی کیلئے استعمال سعودی حکومت کے طیارے میں تکنیکی خرابی کے حوالے سے کہانیاں جنم لے رہی ہیں

وزیر اعظم عمران خان کی نیو یارک سے وطن روانگی اور واپسی کیلئے استعمال سعودی حکومت کے طیارے میں تکنیکی خرابی کے حوالے سے کہانیاں جنم لے رہی ہیں

نیوز ٹائم

وزیر اعظم عمران خان کی نیو یارک سے وطن روانگی اور واپسی کیلئے استعمال سعودی حکومت کے طیارے میں تکنیکی خرابی کے حوالے سے کہانیاں جنم لے رہی ہیں  کہ2.30 منٹ پرواز کے بعد اتنے ہی وقت میں واپس آنے کی بجائے ہنگامی لینڈنگ کا آپشن استعمال کیوں نہ ہوا؟ وزیر اعظم کو میڈیا کے سامنے لا کر خدشات دور کرنے کی حکمت علمی اختیار نہ کرنے کی کیا وجہ تھی؟ بھارت اور بھارتی میڈیا اس حوالے سے پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے جبکہ حکومت تاحال خاموش ہے۔

تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان کی نیو یارک سے سعودی حکومت کے طیارے میں روانگی اور ڈھائی گھنٹے تک امریکا اور کینیڈا کے مختلف علاقوں پر پرواز کے بعد  یورپ اور شمالی امریکا کے درمیان حائل گہرے سمندر، اٹلانٹک اوشین، پر ابتدائی پرواز کے بعد فلائٹ کا اتنی بلندی پر ہی یوٹرن لے کر کسی قریبی ایئر پورٹ پر اترنے کی بجائے  2.30منٹ کا واپسی سفر کر کے نیو یارک آنا ابھی تک نہ صرف ایک معمہ بنا ہوا بلکہ مختلف ٹیکنیکل سیاسی سوالات اور کہانیوں کو جنم دے رہا ہے  بلکہ ملک کی داخلی سیاست میں عمران خان کے سیاسی مخالفین کے امریکا میں کارکنوں کو قیاس آرائیاں کرنے کا موقع بھی فراہم کر رہا ہے۔ عمران خان کی موثر اور جرات مندانہ نمائندگی، موثر دلائل کے ساتھ عالمی اور امریکی فورمز میں کشمیر، کشمیریوں کی وکالت،  بھارت کے عزائم اور ظالمانہ اقدامات پر سے پردہ اٹھانے پر سخت ناراض بھارت سرکار اور میڈیا بھی اس بارے میں اپنا پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے لیکن حکومت پاکستان کی تاحال خاموشی اور اس بارے میں حقائق جاننے کی ضرورت متعدد جواب طلب سوالات کو جنم دے رہی ہے کہ:

(1) ۔27 ستمبر کی شب 5 گھنٹے کی فلائٹ کے بعد واپس نیو یارک پہنچنے پر وزیر اعظم عمران خان کو عوامی میڈیا کے سامنے لا کر خدشات دور کرنے کی حکمت عملی اختیار نہ کرنے کی وجہ کیا تھی ؟

(2)۔ پاکستان سے آئے 20 سے زائد صحافیوں، سرکاری ٹی وی، امریکا میں پاکستانی میڈیا کے نمائندے صرف چند لائن کے ایک پیغام کے ذریعے بلا کر بہت سی قیاس آرائیوں اور افواہوں کو ختم کیا جا سکتا تھا  بلکہ اسی ہوٹل میں موجود صحافیوں کو بھی اس بارے میں لاعلم اور لاتعلق رکھا گیا۔

 (3) ۔ پاکستان مشن برائے اقوام متحدہ نے صحافیوں کے ساتھ اپنی پیغام رسانی کے پہلے سے قائم نظام کو بھی استعمال کر کے چند سیکنڈ میں سب کو مطلع کرنے کی زحمت بھی نہیں کی ؟

(4)۔ بااعتماد وزیر اعظم کی چند منٹ کی پریس کانفرنس اور موجودگی سے تشویش دور کرنے کی بجائے پراسرار خاموشی اختیار کی جبکہ واپسی پرواز کے دوران وزیر اعظم کے بعض ہمرا ہی جو بڑے خوفزدہ تھے ہوٹل میں بخیریت واپسی کے بعد خود کئی سازشی نظریات، ممکنہ افواہوں، قیاس آرائیوں پر مبنی کہانیاں اور اندازے پیش کر کے مضحکہ خیز انداز میں قہقہے لگا کر اپنا خوف دور کرتے رہے۔  پورے میڈیا کی موجودگی میں محض مخصوص سیکیورٹی ماحول میں وزیر اعظم کی جہاز سے اترنے کی تصویر مخصوصی پسندیدہ ٹی وی پر چند جملے نشر کرانے سے شکوک میں اضافہ ہوا ہے۔ باقی منتظر میڈیا کو شکوک میں مبتلا کیا گیا؟

(5)۔ اگر فلائٹ میں ٹیکنیکل خرابی اتنی ہی غیر اہم تھی کہ پرواز کو ہنگامی لینڈنگ کی بجائے ڈھائی گھنٹے تک واپسی نیو یارک ایئر پورٹ تک کا سفر جاری رکھا  اور محفوظ خیال کیا گیا تو پھر واپسی کی بجائے مزید چند گھنٹے سمندر اٹلانٹک اوشین پر ہی سفر جاری رکھ کر یورپ پہنچنے کا آپشن کیوں اختیار نہیں کیا گیا؟  اس طرح یورپ تک کا سفر بھی مکمل ہو جاتا، وقت بھی بچ جاتا۔

(6)۔ شاہی سعودی حکومت کے اس بیڈ روم والے طیارہ کے نیوی گیشنل سسٹم کا اس طرح اٹلانٹک اوشین پر اچانک خراب ہو جانا نہ صرف عمران خان اور اہل پاکستان کیلئے حیرانگی اور تشویش کا باعث ہے  بلکہ خود عمران خان کے میزبانوں اور طیارے کو اکثر و بیشتر استعمال کرنے والے سعودی عمائدین اور طیارے کی مالک سعودی حکومت کیلئے حقیقی وارننگ اور انتہائی تشویش کی بات ہے۔ اس طیارہ کی ساخت، سال، ماضی کے سفر کا ریکارڈ اور فلائٹ کیلئے فٹ ہونے کے ریکارڈ کو پبلک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی اعتماد بحال ہو سکے۔

(7)۔ عمران خان کو نیو یارک لانے کے بعد یہ سعودی حکومت کا طیارہ 6 روز تک نیو یارک ایئرپورٹ پر موجود رہا۔ اس دوران اس کی سیکیورٹی، مینٹیننس، چیکنگ اور فلائٹ کیلئے فٹ ہونے کا ریکارڈ کیا اور کہاں ہے؟ جو بہت کچھ بتا سکتا ہے۔

(8)۔ سسٹم فیل ہونے کے بعد ہنگامی طور پر نیو یارک واپسی کے بعد طیارہ کے کپتان نے اعتماد کی بحالی کیلئے کوئی بیان دینے یا چند جملے کہنے کیلئے طیارہ کے عملہ نے بھی خاموشی کو نہیں توڑا بلکہ مکمل خاموشی اختیار کئے رکھی حالانکہ وزیر اعظم عمران، طیارہ کے کپتان، عملہ اور عمران خان کے ہمراہی طیارہ میں ہی موجود میڈیا والوں کی موجودگی کا فائدہ اٹھا کر تمام خدشات، تشویش دور کر کے حقائق بیان کر سکتے تھے ایسا نہ کرنے کی وجوہات؟

بہرحال ان تمام سوالات کے جواب میں حقائق بیانی کی ضرورت ہے بلکہ عمران خان کے دورہ اقوام متحدہ کے دوران جماعت الدعوة کے سربراہ مولانا اظہر سعید پر سے اقوام متحدہ کی جانب سے عائد شدہ پابندیوں اور منجمد اثاثوں میں سے زندگی گزارنے کیلئے ڈیڑھ لاکھ روپے نکالنے کی اجازت پر مبنی ایک ماہ پرانے خط کو لیک کرنے کی سازش بارے بھی سوالات کرنے اور حقائق سامنے لانے کی ضرورت ہے۔

No comments.

Leave a Reply