چین آج کی دنیا کا انقلابی محور!

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جنرل اسمبلی سے جو خطاب کیا ہے، اس میں ہونے والی نئی عالمی صف بندی کی کھل کر نشاندہی کی ہے  اور کہا ہے کہ دنیا امریکہ اور چین میں تقسیم ہو رہی ہے

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے جنرل اسمبلی سے جو خطاب کیا ہے، اس میں ہونے والی نئی عالمی صف بندی کی کھل کر نشاندہی کی ہے اور کہا ہے کہ دنیا امریکہ اور چین میں تقسیم ہو رہی ہے

نیوز ٹائم

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 74ویں اجلاس کے موقع پر عالمی رہنمائوں کی سرگرمیوں، انٹرویو، بیانات اور جنرل اسمبلی میں کی گئی تقریروں سے کچھ ایسے اشارے ملے ہیں،  جن سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا کس طرف جا رہی ہے اور نئی صف بندیاں کیا ہو رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل António Guterres نے جنرل اسمبلی سے جو خطاب کیا ہے، اس میں ہونے والی نئی عالمی صف بندی کی کھل کر نشاندہی کی ہے  اور کہا ہے کہ دنیا امریکہ اور چین میں تقسیم ہو رہی ہے۔  دونوں اپنے اپنے مخاصمانہ انٹرنیٹ سسٹم، کرنسی، تجارتی اور مالیاتی قوانین بنا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل  António Guterres نے دنیا کو اس تقسیم کے اثرات سے خبردار کیا اور کہا کہ اس تقسیم سے بچنے کیلئے یونیورسل سسٹم اور یونیورسل اکانومی برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے۔ انہوں نے یہ بھی انتباہ کیا کہ خلیج (Gulf) دنیا کا نیا فلیش پوائنٹ بن سکتا ہے کیونکہ خلیج میں جنگ کے بادل منڈ لا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بین السطور نئے بلاکس کی تشکیل اور اس میں رونما ہونے والے تضادات کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اس موقع پر اپنے خطاب میں چین اور ایران کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے چین کو ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (ڈبلیو ٹی او) کا رکن بنانے پر سخت تنقید کی اور عالمگیریت سے بچنے کی تاکید کی۔ انہوں نے ایران کو عالمی امن کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ امریکی صدر نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ زیادہ گرمجوشی کا بھی مظاہرہ کیا۔ اس طرح امریکی صدر نے خود اپنے بیانات اور سرگرمیوں سے اس تاثر کو تقویت دی کہ چین ایک بڑی عالمی طاقت بن گیا ہے۔ ایران جیسے ممالک بھی معاشی اور فوجی طاقت بن کر ابھر رہے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یک قطبی نظام (یونی پولر سسٹم) ختم ہو چکا ہے،  جو سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی ایسی بالادستی سے قائم ہوا تھا، جسے کوئی چیلنج کرنے والا نہیں تھا کیونکہ اشتراکی بلاک غیر موثر ہو گیا تھا اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا تھا۔

امریکی صدر ٹرمپ نے چین اور ایران کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ کیوں بنایا؟ اس کا سبب یہ ہے کہ تین عشروں سے زیادہ واحد عالمی طاقت رہنے والے امریکہ نے یہ محسوس کر لیا ہے  کہ دنیا دو قطبی یا کثیر قطبی ہو رہی ہے۔ فی الوقت چین کے بارے میں بات کرتے ہیں، جو یورپ اور امریکہ کی منڈیوں میں گھس گیا ہے  اور جس نے نئے عالمی ضابطے کی تشکیل کیلئے بنیادیں فراہم کر دی ہیں۔ عالمی سطح پر اس وقت جو صف بندی ہو رہی ہے، وہ جنگ عظیم او ل اور دوئم میں عالمی سامراجی طاقتوں کی ایک دوسرے کے خلاف صف بندی جیسی نہیں ہے۔ عالمی جنگیں دراصل سرمایہ دارانہ نظام کے اندرونی تضادات کا نتیجہ تھیں۔ موجودہ صف بندی سرد جنگ کے عہد والی بھی نہیں ہے، جس سے سرمایہ دارانہ اور اشتراکی بلاکس ایک دوسرے کے خلاف صف آرا تھے۔  موجودہ ہونے والی عالمی صف بندی میں ایک طرف امریکہ ہے، جو عالمی سامراجی نظام کا سرخیل ہے جبکہ دوسری طرف چین ہے، جس نے اپنے ہاں چین کی خصوصیات والا اشتراکی (سوشلسٹ) طرز حکمرانی قائم کیا ہوا ہے اور فری کالونی کے ذریعے دنیا پر اپنا معاشی تسلط قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین جو کچھ کر رہا ہے، اسے بھی کسی حد تک سامراجی عزائم سے تعبیر کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی بنیاد نوآبادیاتی یا استعماری نہیں ہے۔  چین جنگوں اور فوجی مہم جوئی کے بغیر عالمی طاقت اور ایک نئے بلاک کے قائدانہ کردار کا حامل بن رہا ہے۔ یہ تاریخ کا ایک نیا عمل ( Phenomenon ) ہے۔

1917میں انقلاب روس اور 1949ء میں انقلاب چین تاریخ انسانی کے بہت بڑے واقعات ہیں، جنہوں نے تاریخ کے دھارے بدل دیئے ہیں۔ جیسے ہی سرد جنگ کا عہد ختم ہوا، روس کا انقلاب اپنے آپ کو سنبھال نہ سکا۔ ناصرف سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا لیکن چین میں Mao Zedong اور ان کے Zhou Enlai جیسے ساتھیوں نے جو انقلاب برپا کیا، وہ جاری و ساری ہے۔ وہ سرد جنگ کے عہد کے خاتمے کا زلزلہ بھی برداشت کر گیا۔  وہ امریکہ کے نیو ورلڈ آرڈر والی یونی پولر ورلڈ کے قہر سے بھی بچ کر نکل آیا اور دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔

1980کے عشرے کی ابتدا میں روسی انقلاب کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ اور روسی صدر Mikhail Gorbachev کے Glasnost کی بھینٹ چڑھ گیا  لیکن چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنے آپ کو ایک زندہ سیاسی جماعت کے طور پر قائم رکھا اور کسی رہنما نے پارٹی کو گمراہ یا ہائی جیک کرنے کی کوشش کی تو وہ کامیاب نہیں ہوا۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی میں نہ صرف مختلف الخیال لوگ ہیں بلکہ اختلاف رائے کی بھی اس میں بہت گنجائش ہے۔ ہر 5 سال بعد چین کی کمیونسٹ پارٹی کی نیشنل کانگریس ہوتی ہے اور اس میں پارٹی دستاویز منظور کی جاتی ہے۔ یہ دستاویز اوپر سے نچلی سطح تک منظم مشاورت کے بعد تیار کی جاتی ہے۔ اس دستاویز میں ماضی، حال اور مستقبل کے تناظر میں حالات کا تجزیہ کیا جاتا ہے اور آئندہ کی حکمت عملی طے کی جاتی ہے۔  چین کے انقلاب نے دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک میں غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ کیا اور لوگوں کا معیارِ زندگی بلند کیا۔

Xi Jinping کی آئیڈیالوجی کا عنوان ہے چین کی خصوصیات کے ساتھ سوشلزم نئے عہد میں اس آئیڈیالوجی کو سمجھنے کی ضرورت ہے،  جس نے چین میں اربوں اور کھربوں ڈالر کے سرمائے والی کمپنیوں کو دنیا میں پھیلا دیا ہے لیکن چین کی کمیونسٹ پارٹی کا ان پر مکمل کنٹرول ہے۔ یہ تاریخ انسانی کا پہلا اور کامیاب تجربہ ہے۔ یہ چینی کمپنیاں سامراجی دنیا کی کثیر القومی کمپنیوں کی جگہ لے رہی ہیں۔ دنیا ایک نیا عالمی ضابطہ بنتا ہوا دیکھ رہی ہے۔ چین تاریخ انسانی کی انوکھی عالمی طاقت بن رہاہے۔

No comments.

Leave a Reply