فلسطین اور اسرائیل، چند حقائق

فلسطین کو انبیا کرام کی سرزمین کہا جاتا ہے

فلسطین کو انبیا کرام کی سرزمین کہا جاتا ہے

نیوز ٹائم

فلسطین کو Holy Prophet کی سرزمین کہا جاتا ہے اسی لئے ارض فلسطین کو مسلمانوں میں انتہا درجہ تقدس حاصل ہے، حضرت ابراہیم، حضرت اسحق، حضرت موسیٰ سمیت Holy Prophet کی کثیر تعداد یہاں معبوث ہوئی۔  اسی علاقے میں مسجد اقصی بھی واقع ہے جو مسلمانان عالم کی ان تین عبادت گاہوں میں سے ایک ہے جس کی جانب سفر کرنا جائز اور کارِثواب ہے۔  مسجد اقصی دنیا کی دوسری مسجد ہے جو خانہ کعبہ کے بعد تعمیر ہوئی۔  یہ مسجد محترم اس لئے بھی ہے کہ اس میں Hazrat Mohammad (peace be upon him)  نے Maraj  Shareef پر جانے سے پہلے تمام Holy Prophets کی امامت کی تھی۔

قدیم تاریخ کے مطابق فلسطین کا 5000 سال پہلے نام ارض کنان تھا جو عرب سے آنے والے کنعانیوں کی نسبت سے رکھا گیا تھا۔ حضرت عمر کے دور میں وہاں کے عیسائیوں نے اسے حضرت عمر کے حوالے کر دیا۔  1097ء  میں یہودیوں نے اس پر قبضہ جمایا پھر سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1352ء میں اسے یہودیوں کے چنگل سے آزاد کرایا۔  گو کہ آج عملی طور پر فلسطین ہو یا اسرائیل اس پر قبضہ یہودیوں کا ہی ہے حتی کہ مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس میں بھی یہودیوں کی مرضی کے بغیر جایا نہیں جا سکتا۔ بیت المقدس جو بے شمار فضیلتوں کا حامل ہے اس کے مقدس و محترم ہونے کیلئے یہی بات کافی ہے کہ  Hazrat Mohammad (peace be upon him) جبرائیل امین کے ہمراہ اسی جگہ سے براق پر بیٹھ کر Allah  سے ملاقات کیلئے روانہ ہوئے۔ مسجد اقصی یروشلم میں ہے جو یہودیوں کے زیرانتظام ہے۔

حضرت ابراہیم سے اپنا سلسلہ جوڑنے والے تینوں مذاہب یروشلم کو مقدس شہر کہتے ہیں اس کے چاروں طرف ایک پرانی اور پتھروں سے بنی ہوئی مضبوط دیوار ہے  جس کے اندر تینوں مذہب کیلئے مقدس ترین مقامات ہیں، برطانیہ کی ایک این جی او المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین عبد الرزاق ساجد اور راجہ فیض سلطان کے ہمراہ حال ہی میں فلسطین و اسرائیل کے کئی ایک شہروں کا دورہ کیا۔ ساجد صاحب مقدس مقامات کی زیارت کے ساتھ ساتھ جنگ سے متاثرہ اور اسرائیلیوں کے مظالم کے شکار مظلوم فلسطینیوں کی مالی مدد کے لئے دوائوں و کھانے پینے کی اشیا سے مدد کرنا چاہتے تھے۔

یروشلم جسے مسلمان القدس کہتے ہیں اور جہاں مسجد اقصی وڈوم آف دی راک (قبتہ الضحرہ) کے علاوہ کرٹیل یا مغربی دیوار اور دیوار گریہ بھی واقع ہے یہودیوں کے مطابق یہاں کبھی ان کا مقدس مقام تھا جسے ہول آف دی ہولیز کہا جاتا ہے اور یہ دیوار مسجد اقصیٰ کی ایک بیرونی دیوار ہے۔  اسی دیوار کی دوسری طرف وہ جگہ ہے جہاں معراج پر جانے سے پہلے Hazrat Mohammad (peace be upon him) براق کو باندھا تھا، یہودیوں کے مطابق یہ وہ جگہ ہے جہاں سے کائنات کی تخلیق ہوئی تھی اور حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے حضرت اسحقٰ (مسلمان حضرت اسماعیل) کی قربانی کی تیاری کی تھی۔  کچھ انتہا پسند یہودیوں کے مطابق ڈوم آف دی راک ہی ہولی آف دی ہولیز ہے، ہم نے مسجد اقصی، ڈوم آف دی راک اور یروشلم سے تقریبا 20 کلومیٹر کے فاصلہ پر علاقہ جوڈین میں نبی موسی کے مقام پر حضرت موسی کے روضہ یروشلم سے 152 کلومیٹر کی مسافت پر واقع نیبلس کا بھی سفر کیا جہاں پرانے شہر میں وہ جگہ واقع ہے  جہاں حضرت یعقوب نے حضرت یوسف کی گمشدگی کے بعد ان کا انتظار اور قیام کیا تھا۔  اس جگہ پر ایک مسجد بنا دی گئی ہے جو سینکڑوں سال قدیم ہے۔  پھر یروشلم سے تقریباً ایک گھنٹے کے سفر پر الخلیل کے مقام پر ہیبرون شہر میں حضرت ابراہیم، حضرت اسحق اور حضرت سارہ کے مزارات پر حاضری کے علاوہ یروشلم کے پاس ہی فلسطینیوں کے زیرانتظام ایک ہسپتال میں جہاں غزہ اور دیگر جنگ زدہ علاقوں سے آ کر علاج کرانے والے بے آسرا اور ضرورت مندوں کی مالی امداد اور ڈاکٹروں کی ہدایات کے مطابق عبد الرزاق ساجد نے المصطفی ویلفیئر ٹرسٹ کی طرف سے ان کی دوائوں کی صورت میں مدد کی کوشش بھی کی۔

یروشلم سے بذریعہ سڑک روانہ ہوں، نیبلس جانا ہو یا الخلیل ہیبرون، پتا ہی نیں چلتا کہ کہاں اور کون سا علاقہ فلسطین کا ہے اور کہاں یہودیوں کی بستیاں شروع ہو جاتی ہیں۔  جب ہم حضرت ابراہیم کے روضہ پر پہنچے تو باہر یہودیوں کی ایک چیک پوسٹ تھی جو ہر آنے جانے والے پر نظر رکھے ہوئے تھے پھر روضے کے بالکل پاس بھی ایک چیک پوسٹ موجود ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ یہ ویسٹ بینک یا فلسطین کا علاقہ کس طرح سے ہوا؟  حقیقتا یوں لگتا ہے کہ اسرائیل ہو یا فلسطین عملاً اس سارے خطے پر قبضہ یہودیوں کا ہی ہے۔  انہیں جو تھوڑی بہت مزاحمت کا سامنا ہے وہ غزہ کی پٹی پر ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں پہنچنا مشکل تر ہے، یروشلم میں مہنگائی لندن اور پیرس سے بھی زیادہ ہے۔  مسجد اقصی کے اندر خواتین سرعام بھیک مانگتی ہیں حالانکہ انتظامیہ منع بھی کرتی ہے۔  الاقصی کے اطراف میں تنگ بازاروں میں چھوٹی بڑی دکانوں والے بھی سیاحوں کی جیب کاٹتے وقت اس بات کا بالکل خیال نہیں کرتے کہ اس جگہ کا تقدس کیا ہے،  یہ سیاحوں سے دگنی تگنی اور چوگنی قیمتیں وصول کرنے میں ذرا بھی جھجک، شرم اور گناہ محسوس نہیں کرتے۔

یروشلم کی آبادی ایک تہائی فلسطینیوں کی ہے جن میں بہت سے خاندان صدیوں سے وہیں آباد ہیں، شہر کے مشرقی حصے میں یہودی بستیوں کی تعمیرات بھی تنازع کا بڑا سبب ہے کیونکہ بین الاقوامی قوانین کے تحت یہ تعمیرات غیر قانونی ہیں جبکہ اسرائیل اس سے انکار کرتا ہے حالانکہ بین الاقوامی برادری کئی دہائیوں سے کہہ رہی ہے کہ یروشلم کی حیثیت میں کوئی تبدیلی صرف امن مذاکرات سے ہی آ سکتی ہے لہذا تمام ممالک کے سفارتخانے تل ابیب میں واقع ہیں اور یروشلم میں صرف قونصل خانے ہیں۔ یہودیوں اور فلسطینی مسلمانوں کے مابین ایک نہ ختم ہونے والی جنگ جاری ہے لیکن عبد الرزاق ساجد کے مطابق انہوں نے یہ دورہ صرف فلسطینی مسلمانوں کی اخلاقی دینی و لحاظ سے مدد کیلئے کیا ہے  کیونکہ زمینی حقائق یہی ہیں کہ اسرائیل کی آرمڈ فورسز نہتے فلسطینیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں  اور آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ فلسطینی مسلمان اپنے علاقوں میں بھی ایک کھلی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں۔  اسرائیلی تو بلاروک فلسطین جا سکتے ہیں لیکن فلسطینی مسلمان اسرائیلی علاقوں اور مسجد اقصی تک نہیں آ سکتے۔

No comments.

Leave a Reply