مصر اور پاکستانی کی موجوہ معاشی اور داخلی صورتحال تشویشناک

دونوں ممالک کی موجوہ معاشی اور داخلی صورتحال میں ممکنہ مماثلت تشویشناک ہے

دونوں ممالک کی موجوہ معاشی اور داخلی صورتحال میں ممکنہ مماثلت تشویشناک ہے

نیوز ٹائم

مصر کے سابق صدر محمد مرسی کی وفات پر ایک تجزیہ نگار نے لکھا: مصر اور پاکستان میں یہ مماثلت کیسی ہے؟ ہم ایک جیسے کیوں ہیں؟ حسن البنا اور قائد اعظم۔  سید مودودی اور سید قطب۔  جمال عبد الناصر اور ذوالفقار علی بھٹو۔ حسنی مبارک اور ضیاء الحق۔ جنرل سیسی اور۔۔۔ خیر چھوڑیے کہاں تک تقابل کریں۔  سب کچھ تو تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے۔  سوال وہی ہے کہ یہ مماثلت کیا ہے اور کیوں ہے؟ مصر کی تاریخ بادشاہوں کی تاریخ ہے اور ہماری بھی۔ بادشاہ کا نام کچھ بھی ہو، ہوتا وہ فرعون ہی ہے۔ اس ایک لفظ میں بادشاہت کا تصور سمٹ آیا ہے۔

تاریخی اعتبار سے مصر اور پاکستان کا تقابل تو قابل بحث ہو سکتا ہے، لیکن دونوں ممالک کی موجوہ معاشی اور داخلی صورتحال میں ممکنہ مماثلت تشویشناک ہے۔  مصر نے تین سال قبل خراب معاشی صورتحال اور تجارتی خسارے میں اضافے کی وجہ سے 12 ارب ڈالر کا آئی ایم ایف پروگرام کیا جو امسال جولائی میں ختم ہو گیا ہے۔  اقتصادی امور کے معروف جریدے فائنانشل ٹائمز نے اپنی حالیہ رپورٹ میں مصر کی معاشی صورتحال کی تعریف کی ہے، جریدے کے مطابق مصر کو خطے کی تیزی سے بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔  مصری صدر عبد الفتاح السیسی نے 2013 ء میں جب اقتدار سنبھالا تو غربت کی شرح زیادہ تھی اور بیرونی سرمایہ کاری انتہائی کم تھی۔  جریدے نے ایک ماہر معاشیات کو نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مصر کامیاب معاشی اصلاحات کی مثال اور ابھرتی ہوئی معیشت ہے۔ مصر نے آئی ایم ایف پروگرام شروع کرنے کے بعد مقامی کرنسی کی قیمت کم کی، بنیادی ضروریات کی اشیا سے سبسڈی ختم کی اور ٹیکس میں اضافہ کیا۔  جریدے کے مطابق تین سالہ پروگرام ختم ہونے پر آج مصر کی شرح نمو 2010 ء کے بعد اعلی ترین سطح 5.6 فیصد پر ہے، قرضوں اور بجٹ خسارے میں کمی آئی ہے، شرح نمو کا خسارہ تین سال میں 12 فیصد سے کم ہو کر 8 فیصد ہو گیا ہے، تاہم نجی شعبہ اب بھی حکومتی پالیسی کے حوالے سے تذبذب کا شکار ہے۔

مصر کی معاشی صورتحال کے متعلق ایک طرف تو یہ رپورٹ ہے جس میں سرمایہ کاروں نے مصر کی معاشی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا ہے، دوسری طرف ایک اور معروف جریدے دی اکانومسٹ نے کچھ مختلف تصویر پیش کی ہے۔ دی اکانومسٹ نے مصر کے سنسان بازاروں کی مایوس کن تصویر کشی کی ہے جہاں دکاندار ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں، بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمت کی وجہ سے دکانوں میں موبائل کی روشنی کے علاوہ تمام روشنیاں گل ہیں۔ جریدے کے مطابق مصر نے 2020 ء میں غربت کی شرح نصف تک لانے اور 2030 ء تک غربت کے مکمل خاتمے کا منصوبہ بنایا ہے، لیکن مصر غلط راہ پر گامزن ہے، کیونکہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018ء میں مصر کی 33 فیصد آبادی غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے، جبکہ 2015ء میں یہ شرح تقریباً 28 فیصد تھی، سرکاری دعوے کے برعکس ورلڈ بینک کے مطابق مصر کی 60 فیصد آبادی غریب یا غربت کے دہانے پر ہے۔

دی اکانومسٹ نے لکھا ہے کہ کرنسی کی قیمت میں کمی اور ٹیکس لاگو کرنے سے مصر کا خسارہ تو کم ہو گیا، لیکن عام مصری شہری کی زندگی بدتر ہو گئی، پٹرول اور گیس پر سبسڈی کم کرنے سے روز مرہ کی نقل و حرکت مہنگی ہو گئی، خانگی خرچوں میں 43 فیصد اضافہ ہوا ہے، مصری شہریوں کی آمدنی تین سال پہلے کے مقابلے میں کم ہے۔  معاشی صورتحال سے سب زیادہ متاثر غریب ترین طبقہ ہو رہا ہے، گوشت لگژری آئٹم ہو گیا ہے، عام کھانے پینے کی اشیا مہنگی ہو گئی ہے۔  جریدے کے مطابق حکومت شہریوں کے حلق سے پیسے نکال رہی ہے، ڈرائیونگ لائسنس، گن پرمٹ، اسکول فیس وغیرہ سب کی قیمتوں اور ٹیکسوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔  مصری حکومت نے معاشی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے غربا کے لیے فلاحی منصوبے شروع کیے ہیں لیکن ان سے استفادہ کرنے والوں کی شرح صرف 10 فیصد ہے۔ عالمی میڈیا کی مصر کی معاشی صورتحال سے متعلق رپورٹس میں ایک دلچسپ اور اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ مصر میں معیشت فوج نے سنبھالی ہوئی ہے، مصری افواج کی ملکیت میں کئی کمپنیاں ہیں، ہر تجارتی شعبے پر فوج کا تسلط ہے جس کا مجموعی معاشی صورتحال پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اس نکتے کا ہماری ملکی معاشی صورتحال سے ہرگز کوئی تعلق نہیں، بس یوں ہی تذکرہ یہ نکتہ آ گیا۔

پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال مصر کی تین سال قبل کی صورتحال سے زیادہ مختلف نہیں، ہمیں بھی تجارتی خسارے، غربت اور بیرونی سرمایہ کاری میں کمی ایسے مسائل کا سامنا ہے،  فکر انگیز بات یہ ہے کہ ہم بھی ان مسائل کے حل کے لیے وہی طریقہ کار اختیار کر رہے ہیں جو مصر نے اختیار کیا،  مذکورہ رپورٹوں سے واضح ہے اس ڈگر پر چلنے کا انجام یہ ہے کہ معاشی اشاریے بہتر ہو جائیں گے، حکومتیں دعوے آسمانوں پر پہنچ جائیں گے،  سرمایہ کار خوش ہوں گے، لیکن غریب عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہو جائے گی اور احساس پروگرام ایسے فلاحی منصوبوں کا اثر محدود ہو گا۔  حالیہ آئی ایم ایف پروگرام شروع کرنے سے قبل حکومتی معاشی ٹیم میں جو تبدیلی آئی تھی اس میں ایک اہم اضافہ گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر باقر رضا کی تعیناتی بھی تھی، ڈاکٹر صاحب پاکستان میں تعیناتی سے قبل مصر میں آئی ایم ایف کی جانب سے نگران تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ موصوف کا کام پاکستان میں بھی وہی ہے جو مصر میں تھا، بس منصب کچھ مختلف ہے۔

مصری معاشی ماڈل کسی بھی لحاظ سے مثالی نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ارباب اختیار کو بالخصوص موجودہ اقتصادی ٹیم کو عام آدمی کے حالات کا ادراک نہیں۔  مصر غالبا اب ایک اور آئی ایم ایف پروگرام شروع کرے گا، ہمیں کہا گیا تھا کہ یہ پاکستان کا آخری آئی ایم ایف پروگرام ہے،  لیکن جو معاشی پالیسی اختیار کی جا رہی ہے وہ ہمیں قرضوں کی دلدل میں مزید دھنسائے گی۔ قرضوں سے نجات کا راستہ یہ ہے کہ ہم مقامی صنعت کو فروغ دیں، چھوٹے کاروبار کی حوصلہ افزائی کریں اور برآمدات میں اضافہ کریں، لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک سال گزرنے کے باجود حکومت نے ابھی تک ایکسپورٹ پالیسی ہی نہیں بنائی، ہم اگر اسی ڈگر پر چلتے رہے تو ہمارا انجام مصر سے مختلف نہیں ہو گا۔

No comments.

Leave a Reply