امریکہ کے افغانستان میں سالانہ 45 ارب ڈالر اخراجات

چھ اعشاریہ پانچ ٹریلین ڈالر خرچ ہونے کے باوجود امریکہ افغانستان کو فتح نہ کر سکا اور اب بھی افغانستان پر امریکہ کے سالانہ 45 ارب ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔

چھ اعشاریہ پانچ ٹریلین ڈالر خرچ ہونے کے باوجود امریکہ افغانستان کو فتح نہ کر سکا اور اب بھی افغانستان پر امریکہ کے سالانہ 45 ارب ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

افغانستان پر امریکی حملے کے 18 سال مکمل ہو گئے۔ 6.5 ٹریلین ڈالر خرچ ہونے کے باوجود امریکہ افغانستان کو فتح نہ کر سکا اور اب بھی افغانستان پر امریکہ کے سالانہ 45 ارب ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔ جبکہ طالبان نے 18 سال جنگ مکمل ہونے کے بعد مزید لڑنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ غیر ملکی این جی اوز نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ جنگ کے بعد پیدا ہونے والے بچے بھی اب جنگ میں شامل ہو رہے ہیں۔ افغانستان  کے 30 لاکھ بچے کے دوران جوان ہوئے۔ 7 اکتوبر 2001ء کو امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تھا۔ تاہم 18 سال بعد نہ صرف امریکہ کو شکست کا سامنا ہے۔ بلکہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعیب افغانستان  سے نکلنا چاہتا ہے۔ غیر ملکی این جی او سے دی چلڈرن میں 7 اکتوبر کو جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی ایک پوری نسل جنگ کے دوران پیدا ہوئی جو اب جوان ہو گئی ہے۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پیدا ہونے والے بچے اب جنگ میں شامل ہو رہے ہیں۔ یہ بچے افغانستان پر امریکی حملے کو قبضہ تصور کرتے ہیں۔

دوسری جانب افغان طالبان نے امریکی حملے 18 سال مکمل ہونے پر ایک بیان میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ طالبان، امریکہ کے ساتھ مزید لڑائی کے لئے بھی تیار ہیں۔ افغان طالبان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ آج سے 18 برس قبل امریکہ نے بلاوجہ افغانستان پر حملہ کیا۔ امریکہ حملہ آوروں نے اس وقت 11 ستمبر کے واقعہ کا بہانا بنایا۔ جس کا افغانستان سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی افغانستان کی سرزمین سے اس طرح کے اقدامات کی منصوبہ بندی اور ان پر عملدرآمد کرنے کا کوئی ثبوت تھا۔ امریکی حکام نے حکمت اور تدبیر سے تنازعہ حل کرنے اور افغان طالبان کی جانب سے اس مسئلہ کے پرامن حل کی پیشکش کو قبول کرنے کے بجائے نہایت سفاکانہ انداز سے 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر پہلے فضائی اور پھر زمینی کارروائیوں کا آغاز کیا۔ افغان طالبان اپنی دینی اور ملکی ذمہ داری کے ساتھ امریکی حملے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اللہ کی مدد سے اور اپنی قوم کی حمایت سے امریکی حملے کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔ امریکہ کے افغانستان پر حملے کو 18 برس مکمل ہو گئے اور ظالمانہ امریکی قبضہ جاری ہے۔ جس میں معصوم لوگوں کو مارا جا رہا ہے۔ فضائی اور زمینی کارروائیوں کے ذریعے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ تاکہ اس طریقے سے نااہل، کرپٹ، ناکام، کٹھ پتلی حکومت کو زبردستی افغانوں سے منوایا جائے۔ لیکن ان کے خلاف جہاد اور جدوجہد کا دائرہ بھی پورے ملک تک پھیل چکا ہے اور قربانیوں کے ساتھ پوری قوم امریکی حملہ آوروں اور ان کے حامیوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہے۔ اللہ کے فضل سے دشمن کے تمام حربوں، سازشوں، ہتھکنڈوں، پالیسیوں اور عسکری جدوجہد کو ناکام بنایا گیا ہے۔ فی الحال افغانستان کی جنگ امریکہ کے لیے ایک ناسور بن چکی ہیں۔ یہاں اس کے ہزاروں فوجی ہلاک اور زخمی ہوئے اور اربوں ڈالر ضائع ہوئے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ افغانستان پر حملہ اور جنگ کے تسلسل نے امریکہ کو  بھاری جانی و مالی نقصانات کے علاوہ اس کی ساکھ کو بھی متاثر کیا ہے۔

دنیا کو ایک بلاک سے نکال کر نیٹو جیسے فوجی معاہدے کو بھی رسوا سے دوچار کیا۔ اس ساری شرمندگی کا ذمہ دار خود امریکہ اور خاص طور پر وہ جنگ پسند حلقے اور جرنیل ہیں جو جنگ کی آگ کو بھڑکانا چاہتے ہیں۔ اپنی ہی جاسوس کمپنیوں کے لیے بازار گرم رکھان چاہتے ہیں اور افغانستان کو امداد کے نام پر امریکی شہریوں کی جیبوں سے پیسہ چوری کرنا چاہتے ہیں۔ اس صورتحال کے دوام سے آئے روز امریکی عوام کو نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور افغانستان کی مسلمان اور قابل فخر قوم بھی مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔ افغان طالبان اپنے معقول اور اصولی موقف کے تحت اب بھی امریکی حملہ آوروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ پچھلے 18 برسوں کی طرح مزید مواقع ضائع نہ کریں اور طاقت کے استعمال کا غیر موثر طریقہ چھوڑ دیں۔ افغانوں نے روس کو 12 سال بعد افغانستان سے نکال دیا تھا۔ لیکن امریکہ 18 سال سے افغانستان میں لڑ رہا ہے اور ان کے کھربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں۔

دوسری جانب ویتنام کی جنگ میں جس کو تاریخن کی طوریل ترین جنگ قرار دیا جا رہا ہے۔ 19 سال 4 ماہ اور 29 دن پر مشتمل تھی۔ لہذا اگر افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدہ نہیں ہوتا تو افغان جنگ انسانی تاریخ کی طویل ترین جنگ ہو گئی اور اس میں بھی امریکہ کو شکست کا سامنا ہو گا۔

No comments.

Leave a Reply