جاپان میں شرح پیدائش 30 سال کی کم ترین سطح پر آ گئی

سال 2018 ء میں جاپان بھر میں صرف 5 لاکھ 18 ہزار 590 بچے پیدا ہوئے

سال 2018 ء میں جاپان بھر میں صرف 5 لاکھ 18 ہزار 590 بچے پیدا ہوئے

ٹوکیو ۔۔۔ نیوز ٹائم

دنیا میں طویل العمر کا اعزاز رکھنے والی جاپانی قوم اس وقت بچوں کی کم ترین پیدائش کے مشکل ترین وقت سے گزر رہی ہیں اور جاپان کی شرح پیدائش 30 سال کی کم ترین سطح پر آ گئی۔ جاپان کو دنیا کی طاقتور ترین قوم کا ملک بھی کہا جاتا ہے، جہاں کی 25 فیصد سے زیادہ آبادی 65 سال کی عمر پر مشتمل ہے  جبکہ وہاں پر مرد حضرات کی اوسط عمر 81 سال جب کہ خواتین کی عمر 83 سال ہوتی ہے۔ جاپانیوں کو جہاں صحت مند اور طویل عمر پانے والی قوم کے طور پر دنیا میں شہرت حاصل ہے، وہیں اسی قوم کو شرح پیدائش کی کمی کی وجہ سے خطرات کا بھی سامنا ہے۔

جاپان کو پہلی مرتبہ 1970ء میں شرح پیدائش میں کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم بعد ازاں اس پر قابو پا لیا گیا اور وہاں شرح پیدائش بہتر ہو گئی تھی لیکن اب تازہ رپورٹ کے مطابق وہاں ایک مرتبہ پھر شرح پیدائش انتہائی کم ہو گئی ہے۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ رواں برس کے ابتدائی 7 ماہ میں جاپان کے اندر شرح پیدائش 30 سال کی کم ترین سطح پر آ گئی۔ رپورٹ میں جاپان کے سرکاری اعداد و شمار کے حوالے سے بتایا گیا کہ سال 2018 ء میں جاپان بھر میں صرف 5 لاکھ 18 ہزار 590 بچے پیدا ہوئے اور وہاں پر 1000 افراد پر پیدائش کی شرح 2 اعشاریہ سے بھی کم رہی۔ جاپان کی 2015 ء میں ہونے والی مردم شماری کے مطابق وہاں کی مجموعی آبادی 12 کروڑ 70 لاکھ تھی جو کم ہو کر 12 کروڑ 60 لاکھ سے بھی کم ہو گئی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جاپان میں جہاں سب سے زیادہ طویل العمر لوگ پائے جاتے ہیں، وہاں شرح پیدائش سے زیادہ شرح اموات ہیں اور اگر یہی سلسلہ رہا تو 2065 ء تک جاپان تقریباً حالیہ آبادی سے 9 کروڑ افراد کھو بیٹھے گا۔ جاپان کا شمار دنیا کے ان چند ممالک میں ہوتا جہاں ہر سال بچوں کی پیدائش کی شرح کم ہوتی جا رہی ہے اور ایسے ممالک میں جاپان اور جنوبی کوریا سرفہرست ممالک میں شامل ہوتے ہیں۔

شرح پیدائش میں کمی کے اسباب؟

جاپانی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق مقامی لوگ کم عمری میں شادی کرنے یا پھر جنسی تعلقات استوار کرنے میں کم دلچسپی رکھتے ہیں۔ اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ جاپان میں عام طور پر مرد حضرات 31 برس جبکہ خواتین ساڑھے 29 برس کی عمر میں شادی کرتی ہیں۔ لڑکوں اور لڑکیوں میں تاخیر سے شادی کرنے میں بھی ہر گزرتے سال میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے،  اس سے قبل 2015 ء تک لڑکے 28 سال جبکہ لڑکیاں 26 سال کے بعد شادی کے بندھن میں بندھ جاتی تھیں۔

جاپان میں صرف 2018 ء میں 5 لاکھ 86 ہزار 438 افراد شادی کے بندھن میں بندھے لیکن ان شادی شدہ جوڑے میں سے کتنوں کے ہاں شادی کے ایک سال بعد بچے پیدا ہوئے اس حوالے سے حکومت نے اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔ جاپان میں ایک ہزار کی آبادی میں 2018 ء تک محض 5 افراد نے شادی کی، علاوہ ازیں جاپان میں ایسے افراد کی تعداد بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے جنہوں نے 50 سال کی عمر ہو جانے کے باوجود شادی نہیں کی۔ 50 سال کی عمر تک شادی نہ کرنے والے مرد حضرات کی شرح بڑھ کر 23 فیصد جبکہ خواتین کی شرح بڑھ کر 14 فیصد ہو چکی ہے۔

ساتھ ہی جاپان میں جنسی تعلقات استوار نہ کرنے والے افراد کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے اور 2015 ء تک 18 برس سے 39 برس کی 24 فیصد خواتین ایسی تھیں  جنہوں نے کبھی بھی مباشرت نہیں کی تھی جبکہ ایسے مرد حضرات کی تعداد 26 فیصد کے قریب تھی۔ جاپانی افراد کی جانب سے کیریئر بنانے کے لیے تاخیر سے شادی کرنے، کسی طرح کے جنسی تعلقات استوار نہ کرنے اور پھر شادی کرنے کے فوری بعد طلاقیں لینے کی وجہ سے وہاں شرح پیدائش مسلسل کم ہو رہی ہے۔حکومتی اعداد و شمار کے مطابق صرف 2018 ء میں ہی 2 لاکھ 83 ہزار سے زائد جوڑوں کے درمیان طلاقیں ہوئیں۔

5d9c684addbb35d9c68c12b7505d9c696a3d521

No comments.

Leave a Reply