اسرائیل اپنی سیاسی تاریخ کے بھنور میں

اسرائیلی صدر ریوین ریولن ، وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو ، اور بلیو اینڈ وائٹ پارٹی بینی گینٹز

اسرائیلی صدر ریوین ریولن ، وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو ، اور بلیو اینڈ وائٹ پارٹی بینی گینٹز

نیوز ٹائم

اپریل 2019ء میں پہلی بار آئینی مدت کے مطابق اسرائیل میں انتخابات عمل میں آئے  مگر ملک کی بڑی جماعتوں نیتن یاہو کی لیکڈ پارٹی(Likud Party) اور مقابل امیدوار کی Blue and Whiteپارٹی کو مساوی ووٹ حاصل ہوئے۔ بڑی جدوجہد کے بعد بھی کوئی پارٹی حکومت نہیں بنا سکی۔  اسرائیل کی تاریخ میں تین بار وزیر اعظم رہنے والے بنجمن نیتن یاہو کو پسینے آ گے اور معاملہ وہیں کا وہیں رہا۔  آخرکار اسرائیل کے صدر ریولین سے درخواست کی گئی کہ وہ دوسری بار انتخابات کا اعلان کریں۔ لہذا گزشتہ ماہ ستمبر میں دوبارہ انتخابات کا انعقاد کیا گیا، مگر حیرت انگیز طور پر دونوں بڑی جماعتوں کو 120 نشستوں کے ایوان میں پھر 34-34 نشستیں حاصل ہوئیں اور کوئی جماعت اکثریت حاصل نہ کر سکی،  جبکہ حکومت سازی کے لئے 61 نشستیں حاصل کرنا لازمی ہیں۔

اسرائیل گزشتہ چند برسوں سے بڑے معاشی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کا شکار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو پر بدعنوانیوں کے الزامات ہیں۔ اس کے علاوہ اختیارات کے ناجائز استعمال اور گزشتہ برسوں امریکی صدر باراک اوباما سے ایران جوہری معاہدے کے مسئلے پر شدید کشیدگی نے بھی اسرائیل کو نقصان پہنچایا،  مگر ایران اور امریکا کا جوہری معاہدہ طے ہو گیا۔ وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنے حریف امیدوار Benny Gantz کو مخلوط حکومت بنانے کی پیشکش کی جس کو مخالف امیدوار نے رد کر دی۔ ان دو بڑی پارٹیوں کے علاوہ اسرائیل میں 8 مزید سیاسی اور مذہبی جماعتیں ہیں ان میں صرف چند پارٹیاں 4,4 ووٹ حاصل کر کے ایوان میں شامل ہوتی ہیں۔ آئین کے تحت 4 نشستوں سے کم والی جماعت ایوان میں نہیں آ سکتی۔  نیتن یاہو نے کوشش کی کہ چار ووٹوں والی جماعتوں کو ملا کر حکومت بنا لیں مگر ان کی لیکڈ پارٹی کے اراکین اس پر راضی نہیں ہیں۔

اسرائیل گزشتہ چند برسوں سے بڑے معاشی، سماجی اور سیاسی بحرانوں کا شکار چلا آ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو پر بدعنوانیوں کے بڑے الزامات ہیں۔  اس کے علاوہ اختیارات کے ناجائز استعمال اور گزشتہ برسوں امریکی صدر باراک اوباما سے ایران جوہری معاہدے کے مسئلے پر شدید کشیدگی نے بھی اسرائیل کو نقصان پہنچایا، مگر ایران اور امریکا کا جوہری معاہدہ طے ہو گیا۔ اس کی وجہ سے نیتن یاہو کو سیاسی طور پر بڑا صدمہ برداشت کرنا پڑا تھا۔  یہ وہ عوامل ہیں جس کی وجہ سے وہ حالیہ انتخابات میں سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔ البتہ نیتن یاہو کو ملک کے کٹر مذہبی حلقوں کی حمایت حاصل ہے جو اسرائیلی ریاست کی مزید توسیع چاہتے ہیں اور دو ریاستوں کے فارمولے کو رد کرتے ہیں۔

بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کے رہنما Benny Gantz نے نیتن یاہو کو تجویز پیش کی کہ دونوں جماعتیں اگر مخلوط حکومت تشکیل دیتی ہیں تو دونوں کو متفقہ طور پر موجودہ پالیسی میں بیشتر ترامیم کرنا ہوں گی۔  نئی پالیسی گائیڈ لائن ترتیب دی جائے گی اور وزیر اعظم کا عہدہ باری، باری دونوں رہنمائوں کے پاس طے شدہ مدت تک رہے گا، مگر نیتن یاہو نے اس تجویز کو رد کر دیا۔ جس کے بعد صدر نے خبردار کیا ہے کہ دونوں جماعتیں جلد فیصلہ کریں ملک میں سیاسی ڈیڈ لاک کی وجہ سے بے چینی، بے یقینی اور مایوسی بڑھ رہی ہے۔ معیشت کمزور سے کمزور تر ہو رہی ہے۔ سیاسی گومگو کی صورتحال کی وجہ سے عسکری حلقوں میں بھی بے یقینی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرح سے اسرائیل کو موجودہ بحران سے بہت سے خطرات اور خدشات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔  صدر نے یہ بھی کہا کہ عین ممکن ہے کہ وہ ملک میں عبوری فوجی حکومت کا اعلان کر دیں جس کی سربراہی وہ خود کریں گے، مگر اسرائیل کے لبرل اور جمہوریت پسند حلقے صدر کی تجویز سے ناخوش ہیں اور وہ اس کی شدت سے مخالفت کر رہے ہیں۔

گزشتہ دنوں یروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ بنانے کے بعد سے ملک کے شدت پسند اور قدامت پسند مذہبی حلقے ملک میں مزید سخت مذہبی پالیسیوں پر زور دے رہے ہیں۔  اب Kamphorst day جو ستمبر کے آخر اور اکتوبر کے اوائل میں 4 تا 6 روزے رکھ کر منایا جاتا ہے اب پہلے سے کہیں زیادہ شدت اور گرم جوشی سے منایا جاتا ہے۔  نیتن یاہو بھی ایک دن کا مکمل روزہ رکھتے ہیں۔ اب جبکہ گزشتہ سال Benny Gantz اپنی Blue and White پارٹی قائم کی ہے ملک میں قدرے سیاسی تبدیلی دکھائی دیتی ہے۔  Benny Gantz 1959ء میں اسرائیل میں پیدا ہوئے۔ تل ابیب یونیورسٹی سے سیاسیات میں ایم اے کرنے کے بعد فوج میں کمیشن لے لیا۔ 2011 تا 2018 ء تک اسرائیلی افواج کے سربراہ سے اور پھر فوج سے سبکدوش ہونے کے بعد اپنی سیاسی جماعت تشکیل دی۔  ان کی جماعت میں لبرل اور جمہوریت پسند اراکین زیادہ ہیں جن میں بیشتر سیکولر ہیں، اس لئے ان کی جماعت نیتن یاہو کے خلاف ہے، کیونکہ نیتن یاہو کی جماعت میں قدامت پسند اور شدت پسند یہودی مذہبی افراد زیادہ ہیں اور وہ Benny Gantz یہودی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں مصروف ہیں، جس کے لئے وہ عربوں کے مقبوضہ علاقوں کو بھی اسرائیلی ریاست میں ضم کر کے وہاں یہودی بستیاں آباد کر رہے ہیں۔ بلیک اینڈ وائٹ پارٹی نے بھی اعلان کیا ہے کہ فلسطینیوں کو آہنی جالی سے آگے آنے نہیں دیں گے جو کہ ایک طرح سے قید خانہ ہے۔  اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہودی خواہ قدامت پسند ہو یا لبرل ہو وہ اندر سے کٹر یہودی اور فلسطین دشمن ہے۔

اسرائیل کی آبادی گزشتہ 12 برسوں میں 55 لاکھ سے بڑھ کر 90 لاکھ ہو گئی ہے، جبکہ پوری دنیا میں یہ مع اسرائیل کی آبادی یہودیوں کی تعداد ایک کروڑ 70 لاکھ سے کچھ زائد ہے، دنیا کی سیاست، معیشت، سائنس ٹیکنالوجی، ہتھیار سازی اور سماجیات کے شعبوں میں اپنا مکمل سکہ جمائے ہوئے ہے۔  دنیا کے تمام بڑے بینک سرمایہ کار، صنعتی ادارے اور تجارتی ادارے یہودی ماہرین کے مرہون منت ہیں۔ نیو یارک اور وال اسٹریٹ یہودیوں کا گڑھ ہے۔  وال اسٹریٹ میں واقع بیشتر ادارے اور دفاتر یہودی قانونی مشیروں، انکم ٹیکس ماہرین، عیار اکائونٹینٹس اور بینکاروں سے بھرے ہیں جو روزانہ دنیا کی معیشت میں تلاظم پیدا کرتے رہتے ہیں۔

اسرائیل کی قدامت پسند جماعتوں کی مانند نئی بلیو اینڈ وائٹ جماعت بھی دیگر یہودیوں کی طرح ایران سے شدید خائف رہتی ہے،  اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ اور مسلم دنیا میں ایران نے اسرائیل کو ہمیشہ کڑی ضرب لگائی ہے  اور اب اسرائیل کو ایک طرف ایران کے ممکنہ ایٹمی پروگرام سے خطرہ ہے تو دوسری طرف ایران کے شام، عراق اور لبنان سے شاہراہ تعمیر کرنے کا خدشہ ہے  اگر ایسا ہوا تو اسرائیل پوری طرح ایران کے گھیرے میں آ جاتا ہے۔  اس لئے اسرائیل، ایران کے ساتھ پراکسی وار کا بہانہ ڈھونڈتا رہتا ہے۔  شام میں تاحال صدر بشار الاسد کی حکومت قائم ہے جو اسرائیل اور اس کے حواریوں کے لئے بہت بڑا سیاسی دھچکا ہے۔  اسرائیل تاحال امریکا پر دبائو ڈال رہا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام سرے سے ہی ختم کرا دے،  مگر امریکی انتظامیہ اسرائیل کی ایسی کسی خواہش کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔ فی الفور اسرائیل کو اپنے سیاسی بحران پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ معلوم نہیں یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔

No comments.

Leave a Reply