نینسی پلوسی کا ارکان کانگریس کے ہمراہ دورہ اردن، امریکی وزیر دفاع کا اچانک دورہ افغانستان

نینسی پلوسی اور کانگرس کے سینئر ارکان نے ہفتے کی شب شاہ عبداللہ سمیت اردن کے دیگر اعلی عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات کیے

نینسی پلوسی اور کانگرس کے سینئر ارکان نے ہفتے کی شب شاہ عبداللہ سمیت اردن کے دیگر اعلی عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات کیے

واشنگٹن، کابل ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ صدر اوباما نے شام سے متعلق سرخ لکیر مٹی میں کیوں کھینچی اور پھر اس ضمن میں کچھ نہیں کیا شام کا سارا وقار خاک میں مل گیا۔ تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے سینئر ارکان کانگریس کی معیت میں اردن کے دورے کی شدید مذمت کی ہے  جس میں انھوں نے اردنی حکام کے ساتھ شام کی صورت حال پر تبادلہ کیا۔ انھوں نے شامی بحران کو اوباما انتظامیہ کی تباہ کن میراث قرار دیتے ہوئے سوال کیا تھا کہ صدر اوباما نے شام میں کس بات کو سرخ لکیر قرار دیا تھا؟ ایک ٹویٹ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ نینسی پلوسی اردن کا دورہ کرنے والے ایک 9 رکنی وفد کی قیادت کر رہی ہیں جس میں Adam Sheef نامی بد عنوان شخص شامل ہے تاکہ شام کی صورت حال کی تحقیقات کر سکیں۔ نینسی پلوسی کو جاننا چاہیے کہ صدر اوباما نے شام سے متعلق سرخ لکیر مٹی میں کیوں کھینچی اور پھر اس ضمن میں کچھ نہیں کیا، شام کا سارا وقار خاک میں مل گیا، میں نے عملی اقدام کیا 58 میزائل داغے، اوباما کی غلطی نے لاکھوں افراد کی جان لے لی۔غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ نینسی پلوسی اور کانگرس کے سینئر ارکان نے ہفتے کی شب شاہ عبداللہ سمیت اردن کے دیگر اعلی عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات کیے۔

امریکی وزیر دفاع ایسپر

امریکی وزیر دفاع ایسپر

دوسری جانب  امریکی وزیر دفاع ایسپر وفد کے ہمراہ اچانک افغانستان پہنچ گئے جہاں انہوں نے صدر اشرف غنی سے ملاقات کرتے ہوئے کہا  کہ افغانستان میں فوجیوں کی تعداد کم کر کے 8 ہزار کی جا سکتی ہے۔ تفصیلات کے مطابق امریکی وفد نے وزیر دفاع ایسپرکی قیادت میں افغان صدر سے کابل میں ملاقات کی  جس میں امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی بھی شامل تھیں، امریکی وفد نے افغان صدر اشرف غنی سے افغانستان اور خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ افغانستان میں فوجیو کی تعداد کم کر کے 8000 کی جا سکتی ہے۔

ترجمان افغان وزارت دفاع فواد امان کے مطابق مارک ایسپر اہم لیڈروں سے ملاقات کرنے والے تھے اور انھیں امریکی فوج کی آپریشنل سرگرمیوں کے بارے میں بریف کیا جانا تھا  تاہم کابل میں امریکی فورسز کے ہیڈ کوارٹرز نے مارک ایسپر کے دورے سے متعلق کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ خیال رہے کہ رواں برس جولائی میں پینٹاگون کی سربراہی سنبھالنے کے بعد امریکی وزیر دفاع کا یہ پہلا دورہ افغانستان ہے، مارک ایسپر ایسے وقت میں دورہ افغانستان پر آئے ہیں جب خطے بالخصوص افغانستان میں قیام امن کے لیے کیے جانے والے مذاکرات جمود کا شکار ہیں۔ واضح رہے کہ اگر فریقین کے درمیان مذاکرات بحال ہونے کے بعد امن معاہدہ طے پا جاتا ہے تو اس کے تحت افغانستان سے امریکی فوج کا بتدریج انخلا ہو گا  لیکن اس کے بدلے میں طالبان بھی سلامتی سے متعلق بعض یقین دہانیاں کرائیں گے۔

No comments.

Leave a Reply