پاکستان کے ہر وزیر اعظم کا مقدر جیل ہو گا؟

راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی، بے نظیر، نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی  یا کوئی اور نامزد تابع فرمان وزیر اعظم ہر کسی کو بہرحال جیل جانا پڑا

راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی، بے نظیر، نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی یا کوئی اور نامزد تابع فرمان وزیر اعظم ہر کسی کو بہرحال جیل جانا پڑا

نیوز ٹائم

تاریخِ پاکستان کا طالبعلم ہونے کی حیثیت سے یہ اندازہ یا پیش گوئی ہے، جو غلط بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اب پاکستان کے ہر وزیر اعظم کا مقدر جیل ہو گا، چاہے وہ چند ماہ وزیر اعظم رہا ہو یا تین بار منتخب ہو کر وزارتِ عظمی پر متمکن ہوا ہو۔ شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال کی مانند گرفتار نہ کئے جاتے لیکن شومئی قسمت کہ وہ کچھ ماہ کے لئے وزیر اعظم بن گئے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد نیب کے ہاتھوں ان کی گرفتاری اوپن سیکرٹ (open secret) تھا کیونکہ مقصد وزیر اعظم کو گرفتار کرنا اور ذلیل کرنا تھا نہ کہ شاہد خاقان عباسی کو کسی آزمائش میں ڈالنا۔ راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی یا کوئی اور نامزد تابع فرمان وزیر اعظم ہر کسی کو بہرحال جیل جانا پڑا۔  اس لئے وہ تمام سیاستدان جو وزارتِ عظمی کا خواب دیکھ رہے ہیں یا یہ تمنا پال رہے ہیں ابھی سے جیل جانے کی پریکٹس کر لیں تاکہ بعد ازاں تکلیف کی شکایت نہ کریں۔ میں علمِ نجوم یا پامسٹری یا روحانیت کا طالبعلم نہیں کہ مجھے اپنی پیشینگوئی پر 100 فیصد اعتماد ہو،  میں تو تاریخ کا ادنی سا طالبعلم ہوں اور اسی حوالے سے اندازے لگاتا اور مستقبل میں جھانکتا ہوں۔

رات سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی خطرناک بیماری، ہسپتال آمد، مسلم لیگی قیادت کا احتجاج اور حکومتی ترجمانوں کے طنز سن کر مجھے بار بار احساس ہوتا رہا کہ اس سارے واقعہ میں عبرت کا بے پناہ سامان پوشیدہ ہے۔ لندن سے علاج کروانے کے عادی سابق وزیر اعظم کی بے بسی، جیل میں بیماری اور نگرانی کرنے والوں کی سردمہری،  سابق طاقتور وزیر اعلی کی آنکھوں میں آنسو، ان کی کمر درد کو فراموش کر کے بار بار اسی ہسپتال کی مریض گردشوں میں خواری جہاں کبھی ان کی آمد پر چڑی بھی پر نہیں مارتی تھی، ادھر بیمار مریم نواز کا جیل میں تڑپنا اور باپ سے ملنے کے لئے بے چین ہونا، یہ سب سوچنے اور غور کرنے کے مقامات ہیں، اس قدر طاقتور انسان کس قدر کمزور اور بے بس بھی ہو سکتا ہے۔  پھر بھی ہم نظامِ قدرت پر غور نہ کریں اور سبق نہ سیکھیں تو آنکھوں سے پردے کیونکر ہٹیں۔

سیاست اپنی جگہ، انسانیت اپنی جگہ، سچ پوچھئے تو میں یہ سوچ کر غم کی وادیوں میں کھو جاتا ہوں کہ میاں نواز شریف زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا اپنی رفیقہ حیات کو لندن میں چھوڑ کر جیل جانے کے لئے پاکستان آئے، مریم کو بھی جیل کاٹنے کے لئے ساتھ لے آئے۔ باپ بیٹی جیل کی سلاخوں کے پیچھے تڑپ رہے تھے جب محترمہ کلثوم نواز کی وفات کی خبر آئی۔ بے بسی کی انتہا دیکھئے کہ میاں صاحب اپنی بیگم کی وفات سے کچھ دیر قبل ان سے لندن میں بات کرنا چاہتے تھے لیکن بار بار درخواست کے باوجود سپرنٹنڈنٹ جیل نے بات نہ کروائی۔

کہاں وزیر اعظم جس کے نام سے سرکاری افسران سہم جاتے تھے اب گریڈ 18 کے افسر کی منت سماجت پر مجبور تھا۔ بیگم کلثوم کی وفات کی خبر مریم کو پہنچی تو وہ صدمے سے ڈھیر ہو گئی۔ میاں صاحب کو اس کی زندگی کے لالے پڑ گئے۔  درمیانی عرصے کی تفصیلات کو چھوڑیے موجودہ منظر نامے پر نگاہ ڈالیے۔  میاں صاحب شدید بیمار ہیں، ڈاکٹر پریشان ہیں کہ بلڈ ٹیسٹ کے نتائج تشویشناک ہیں۔  حکومت ان کو پے رول پر رہا کر کے علاج کے لئے لندن جانے کی اجازت دینے پر مائل نہیں حالانکہ اگر ایسا کر دے تو اس سے حکومتی گراف بہتر ہو گا۔

داماد کیپٹن صفدر کو ایک ایسے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے جسے سن کر ہنسی آتی ہے اور جس کے تحت کم سے کم نصف کابینہ کے خلاف مقدمہ درج ہو سکتا ہے۔ مقامِ غور یہ ہے کہ آج تک نہ کرپشن ثابت ہوئی ہے نہ ایک دھیلا وصول ہوا ہے، تاہم گزشتہ ڈیڑھ سال سے یکطرفہ پروپیگنڈہ جاری ہے اور پروپیگنڈے کا بہرحال اثر ہوتا ہے۔ میں یہ کیوں کہتا ہوں کہ پاکستان کے ہر وزیر اعظم کا مقدر جیل ہے اس لئے وزیر اعظم بننے کے خواہشمند امیدواروں کو اس کی تیاری کرنا چاہئے۔

ذرا اپنی تاریخ پر نگاہ ڈالیے، پاکستان کا پہلا وزیر اعظم جسے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں وہ حسین شہید سہروردی تھا  جس نے تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، بنگال کا وزیر اعلی رہا، 1946ء کے دہلی کنونشن میں پاکستان کے حصول کیلئے قرارداد پیش کی۔ سہروردی پہلا وزیر اعظم تھا جس نے چین کا دورہ کیا لیکن اسے ایوبی مارشل لا کے دور میں 1962ء میں گرفتار کر لیا گیا۔  قصور یہ تھا کہ اس نے ڈٹ کر مارشل لا کی مخالفت کی تھی۔ آمر حکومت نے اس کی ایسی کردار کشی کی کہ اسے مشکوک بنا دیا۔  اس کے بعد جونیجو کے سوا کوئی ایسا وزیر اعظم نہیں گزرا جسے جیل کی ہوا نہ کھانا پڑی ہو۔ جونیجو کو کینسر کے مرض اور جنرل ضیاء الحق کی ناگہانی موت نے جیل سے بچا لیا۔

جنرل ضیاء الحق کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو، محترم میاں نواز شریف، محترم یوسف رضا گیلانی، محترم راجہ پرویز اشرف اور محترم شاہد خاقان عباسی پاکستان کے وزیراعظم بنے۔  سب کے سب نیب کے شکنجے میں ہیں اور جیل کی آزمائش سے گزر چکے ہیں۔ آمرانہ حکومتیں اپنی سیاسی راہ صاف کرنے کے لئے سیاسی وزرائے اعظم کی نہایت سائنسی انداز سے کردار کشی کرتی ہیں  لیکن افسوس کہ خود سیاسی حکومتیں بھی اپنے مخالفین کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتی ہیں۔ نتیجے کے طور پر پاکستان میں سیاست گالی اور کرپشن کا دوسرا نام بن چکا ہے جس نے نہ صرف جمہوریت کی بنیادیں کمزور کر دی ہیں بلکہ عوام کو بھی اس نظام سے بدظن کر دیا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت کا بھی سب سے بڑا کارنامہ سیاستدانوں کی مسلسل کردار کشی ہے اور سابق وزرائے اعظم کو جیلوں میں ڈالنا۔ مختصر یہ کہ اگر پاکستان کی تاریخ کی بنیاد پر پیشگوئی کی جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے ہر وزیر اعظم کا مقدر جیل ہے اور شائد یہی پاکستانی وزارتِ عظمی کا انجام ہے۔

No comments.

Leave a Reply