چاند کا سفر؛ جارج میلیس کے ساتھ

چاند کا سفر؛ جارج میلیس کے ساتھ

چاند کا سفر؛ جارج میلیس کے ساتھ

نیوز ٹائم

قصہ کچھ یوں ہے کہ فرانس امریکا سے کئی برس قبل، 1902ء ہی میں چاند پر پہنچ گیا تھا۔ دنیا بھر کی نصابی کتب میں تو یہی درج ہے کہ 16 جولائی 1969ء کو امریکی، اپنے حریف سوویت یونین کو خلائی جنگ میں شکست دیتے ہوئے چاند پر اپنے خلابازوں کو اتارنے میں کامیاب رہا اور Apollo 11 سے باہر قدم رکھنے کے بعد Neil Armstrong نے امریکی پرچم لہرا کر اشتراکیت پر سرمایہ داریت کی جیت کا اعلان کر دیا۔ البتہ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہماری درسگاہوں کے طلبا کی ایک بڑی تعداد آج بھی اس تاریخی واقعے کو جھوٹ قرار دینے پر مصر ہے،  بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ 1969ء میں تو چھوڑیے، آج تک کوئی انسان کبھی چاند پر گیا ہی نہیں۔ چلیں، یہ سازشی تھیوری تو پھر بھی ہضم ہو سکتی ہے کہ میزائل سازی میں سوویت یونین کی برتری سے پریشان امریکا نے خلائی میدان میں اسے شکست دینے کی ٹھانی،  اور روس کیونکہ 1957ء میں مصنوعی سیارہ خلا میں بھیجے، یہاں تک کہ چند برس بعد بنا انسان کے خلائی جہاز چاند پر اترنے کا دعوی کر چکا تھا، اس لیے امریکی پریشانی فطری تھی۔امریکی سرکار کو تیزی سے حرکت میں آنا پڑا۔

امریکی صدر John F. Kennedy نے 1962ء میں چاند کی تسخیر کے اٹل ارادے کا اعلان کر ڈالا، جس کا نتیجہ 16 جولائی 1969ء کو Neil Armstrong کی چاند پر چہل قدمی اور انہی کے کہے گئے اس جملے کی صورت میں سامنے آیا کہ انسان کا یہ چھوٹا سا قدم، نوع انسانی کے لیے ایک بڑی جست ہے۔ امریکی خلابازوں کی چاند پر چہل قدمی اور مدار میں گردش کی دستیاب فوٹیج کی حیران کن کوالٹی اور چاند پر ہونے والی اس تاریخ ساز سرگرمی کو عام، عوامی ٹی وی سیٹ پر نشر کرنے کی کوشش نے بھی اسے تھوڑا مشکوک بنا دیا۔ یہ تھیوری مشہور ہو گئی کہ ممتاز ہدایت کار Stanley Kubrick نے اسے امریکی سرکار کے فراہم کردہ ایک جدید ترین کیمرے سے لندن کے ایک اسٹوڈیو میں شوٹ کیا تھا۔ جہاں 16 جولائی 1969ء کے واقعے کی بابت اتنے اعتراضات، اتنے سازشی نظریات، وہیں 1902ء میں فرانسیسیوں کی چاند تک رسائی،  وہاں سے بحفاظت واپس آنے کے معاملے پر خاموشی کیوں؟ حالانکہ اس واقعے کی لگ بھگ 14 منٹ کی فلم بھی موجود ہے۔ جی ہاں، یہی اصل نکتہ ہے، یہاں دراصل ایک فرانسیسی فلم Le voyage dans la lune چاند کا ایک سفر کا تذکرہ کیا جا رہا ہے،  اور اہم بات یہ ہے کہ جس طرح Neil Armstrong نے چاند تک رسائی کو انسانیت کی جست قرار دیا تھا ٹھیک ویسے ہی یہ فلم بھی سنیما کی دنیا میں بامِ عروج کو پہنچی۔

چاند کا ایک سفر کا پوسٹر:

دوستو فلم کی تاریخ کافی دلچسپ اور حیران کن ہے اور اس میں سب سے تحیر خیز پہلو یہ ہے کہ کسی بھی مرحلے پر کسی سائنسدان یا انسان نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ فلم یا سنیما نامی کوئی شے ایجاد کرے گا۔ یہ تو صرف حادثات، اتفاقات، ناکام تجربات کا نتیجہ تھا کہ انسان دھیرے دھیرے اس سنیما کی سمت بڑھتا گیا،  جو آج ہمارے سامنے تفریح اور طلسم کی ایک دنیا آباد کیے ہوئے ہے اور ذرائع ابلاغِ عامہ میں سب سے پرقوت ہے۔ گو اس کی عمر ابھی ڈیڑھ سو برس بھی نہیں ہوئی۔ فلم کی تاریخ میں کب کیا واقعات ہوئے؟ کب کیمرا بنا؟ کس کی یہ کاوش تھی؟ رول فلم کس نے ایجاد کی؟ ان سوالات کے جواب اگلی تحریر تک اٹھا رکھتے ہیں،  ابھی توجہ مرکوز کرتے ہیں چاند کا ایک سفر پر، جس میں چاند پر جانے والے سائنسدانوں کا نہ صرف خلائی مخلوق سے سامنا ہوتا ہے بلکہ وہ انہیں مزہ چکھا کر بحفاظت زمین پر لوٹ بھی آتے ہیں۔ یہ فلم ایک جینیئس، ایک دیوانے، Georges Méliés کی ان تھک محنت اور، جیسے پہلے کہا، کچھ حادثوں اور اتفاقات کا نتیجہ تھی۔ جارج ایک جادوگر، اصلی نہیں آنکھوں کو دھوکہ دینے والے تھے اور پیرس میں ان کے فن کا ڈنکا بجا کرتا۔  Special Effects کے استعمال میں انہیں بڑی مہارت تھی۔ روشنیوں کو یوں استعمال کرتے کہ تھیٹر میں حاضرین کو ایسا لگتا کہ برف گر رہی ہے۔ کبھی کبھی وہ بارش کا التباس (illusion) پیدا کر دیتے۔ آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ یہ صاحب ان کاموں میں کتنے ماہر رہے ہوں گے۔

تو ایک دن Georges Méliés کو خبر ملی کہ Lumiere Brothersنے کوئی انوکھی مشین ایجاد کی ہے، جس کے ذریعے تصاویر کو پردے یا دیوار پر پراجیکٹ کیا جا سکتا ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ امریکا میں موجود Thomas Edison (جو ایک سائنسدان سے زیادہ ایک کاروباری شخص تھے) اپنی متعدد کوششوں کے باوجود ایسا کرنے میں ناکام رہے تھے،  اور William Kennedy Dickson کی مدد سے connectivity graph نامی مشین ہی بنا سکے، جو جلد تاریخ کے کباڑ خانے کی زینت بننے والی تھی۔ مگر صاحبو، Thomas Edison  اور Lumiere Brothers کا قصہ اتنا دلچسپ ہے کہ ہمیں اسے سرسری ذکر کے بجائے ایک تفصیلی مضمون تک موخر کر دینا چاہیے۔پلٹتے ہیں Georges Méliés کی سمت کہ جنہیں Lumiere Brothersکی مشین سنیماٹوگراف کی خبر ملتی ہے۔ یہ مشین مناظر ریکارڈ کرنے اور اسے پراجیکٹ کرنے کی حیران کن خاصیت رکھتی تھی۔

جارج میلیسشٹراسٹاک:

پیرس کے ایک کیفے میں جب 1896ء کی ایک شام Lumiere Brothers نے فرانس کے امرا کے لیے 10 مختصر فلموں کی نمائش کا اہتمام کیا تو ہمارا یہ بے بدل جادوگر بھی ادھر موجود تھا۔ Georges Méliés نے جب سنیماٹوگراف کو دیکھا تو اس کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے۔ اس نے سوچا، میں جو میجک ٹرکس اسٹیج پر بار بار کرتا ہوں، اگر اسے ایسی ہی کسی مشین پر ریکارڈ کر لیا جائے، تو میری چاندی ہو جائے گی۔ بجٹ بھی کم لگے گا، محنت بھی ایک چوتھائی اور ہر بار بہترین رزلٹ۔ Georges Méliés نے Lumiere Brothers کو اس مشین کی منہ مانگی قیمت ادا کرنے کی پیشکش کی۔ مگر دونوں بھائیوں نے شرفا کے انداز میں انکار کرتے ہوئے جارج کو باہر کا راستہ دکھا دیا۔ Georges Méliés تو ایک دیوانہ تھا۔ اس نے پوچھ گچھ کی۔ خبر ملی کہ امریکا اور جرمنی میں اس نوع کی مشینوں کی تیاری کے دعوے سامنے آئے ہیں۔ اس نے ان مشینوں کے موجدین سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ گو ان مشینوں میں سے کوئی بھی Lumiere Brothers کے Cinematograph جتنی نفیس نہیں تھی مگر جرمنی میں انہیں ایک ڈھنگ کی مشین مل ہی گئی۔

اب ہمارا پیارا جادوگر مختلف مناظر، اپنے میجک شوز اور اپنی من پسند چیزیں ریکارڈ کر کے محفوظ کرنے لگا۔ پھر ایک روز ایک ایسا واقعہ ہوا، جس نے سنیما کی تاریخ ہی کو بدل ڈالا۔ Georges Méliés ایفل ٹاور پر کھڑا شوٹ کر رہا تھا۔ سامنے سے گھوڑا گاڑی، خواتین اور کچھ مرد گزر رہے تھے۔  اچانک مشین نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ اس نے وہی دیسی طریقہ برتا، جو اچانک بند ہوجانے والی مشینوں کو دوبارہ چالو کرنے کے لیے برتتے ہیں، جی ہاں، چند گھونسے، چند لاتیں اور پھر اچانک جارج کی مشین نے کام شروع کر دیا۔ واپس لوٹ کر جب Georges Méliés نے Movie Develop کی تو وہ ششدر رہ گیا۔ گھوڑے ہوا میں اڑ رہے تھے، مردوں کے کاندھوں پر عورتوں کی گردن تھیں اور سر کٹی عورتیں اطمینان سے چل پھر رہی تھیں۔

Georges Méliés تجسس سے بھر گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ اگر 2 مختلف فلموں کو باہم جوڑ کر Develop کیا جائے تو ناظرین کا سامنا حیرتوں سے ہو سکتا ہے۔ کچھ ایسے مناظر تخلیق کیے جا سکتے ہیں جن کا انسانی آنکھ نے کبھی تجربہ نہیں کیا۔ سمجھ لیجیے کہ انہوں نے فلموں میں Special Effects کو داخل کرنے کا طریقہ کھوج لیا تھا۔Georges Méliés کے سر میں فلم سازی کا بھوت سما گیا۔  انہوں نے چھوٹے چھوٹے تجربات شروع کر دیے۔ پیرس کے مضافات میں ایک بڑا سا، روشن اور مہنگا اسٹوڈیو خرید لیا، جسے اسٹار اسٹوڈیو کا نام دیا گیا اور اسٹار فلم کمپنی کو وجود میں لایا گیا۔ پھر اسی اسٹار فلم کے بینر تلے جولس ورن کے معروف ناولوں From the Earth to the Moon اور Around the Moon کی کہانیوں سے متاثر ہو کر فلم بنائی گئی جو سنیما کے میدان میں رجحان ساز ثابت ہوئی۔ جارج صاحب بھی فلم کی کاسٹ کا حصہ بنے اور 2 کردار نبھائے۔ وہ اس فلم کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ہونے کے ساتھ اس فلم کے چاند بھی وہی بنے۔

فلم کا ایک منظر:

خصوصیات تو کئی، مگر ایک یہی خاصیت ہی بہت ہے کہ اس فلم کے ذریعے سنیما کی تاریخ میں Narrative film کا تصویر آیا، یعنی فلموں میں کہانی شامل ہو گئی۔  یہ تو آپ جانتے ہیں کہ یہ کہانی بیان کرنے کا فن ہی ہے جو کسی بھی تخلیقی سرگرمی کو فن بناتی ہے۔  مصور، مجسمہ ساز، رقاص، ادیب یا فلم ساز، جب اپنی کسی تخلیق میں کہانی شامل کرتا ہے، تب ہی وہ آرٹ کا درجہ حاصل کرتی ہے۔ Georges Méliés نے ایک حیران کن کام اور کیا۔  اس زمانے کی فلمیں بلیک اینڈ وائٹ ہوتی تھیں۔  مگر یہاں ایسا نہیں تھا۔  فلم ڈیولپ تو بلیک اینڈ وائٹ ہی ہوتی، مگر آپ، کسی مصور کی طرح، فلم کے مختلف فریمز، ہاتھ سے رنگ سکتے تھے۔  کیونکہ فلم سازی Georges Méliés کے لیے دیوانگی بن گئی تھی، اس لیے اس نے اسٹوڈیو میں 22 ملازمین کو رکھا ہوتا تھا جو فلم کے ہر فریم پر ہاتھ سے رنگ کیا کرتے۔  بجٹ میں اضافے کا باعث بننے والے اس اقدام اور اس جیسے کئی اقدامات کی وجہ سے آخر میں اسٹار اسٹوڈیو دیوالیہ ہو گیا۔  Georges Méliés سڑک پر آ گیا اور مفلسی نے اسے پیرس کے ایک اسٹیشن پر ٹافیاں بیچنے پر مجبور کر دیا۔

البتہ یہ گمنامی زیادہ عرصہ نہیں رہی، کچھ فلم دیوانوں نے اسے ڈھونڈ نکالا۔ اخبارات میں چرچا ہوا۔ سرکار متوجہ ہوئی۔ اسے اعلی ترین سول اعزاز سے نوازا گیا۔  جنگِ عظیم اول سے ابھرنے والے فرانس میں اسے ایک استاد، ایک جینیئس کے طور پر بے شک سراہا جا رہا تھا، مگر فلمی صنعت کو پہلے پہل چاند پر لے جانا والا جارج میلیس اب بوڑھا اور کمزور ہو گیا تھا، غربت اور مسائل نے اسے توڑ دیا تھا۔ بیماری آئی اور ساتھ موت کا پروانہ لائی۔ 21 جنوری 1938ء کو 76 سالہ Georges Méliés نے اسی شہر میں اپنی آخری سانس لی جہاں وہ پیدا ہوا تھے۔شاید چاند پر قدم رکھتے ہوئے Neil Armstrong کے ذہن میں Georges Méliés کی شبیہ نہ ہو مگر اس جادوگر نے تو امریکا سے لگ بھگ 70 برس قبل ہی یہ منظر دنیا کے سامنے پیش کر دیا تھا۔

No comments.

Leave a Reply