ابو بکر بغدادی کا انجام اور داعش

داعش (ISIS) کے امیر ابو بکر بغدادی

داعش (ISIS) کے امیر ابو بکر بغدادی

نیوز ٹائم

ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے خلاف جس نوع کا آپریشن امریکیوں نے 2011ء میں کیا تھا  کچھ اسی نوع کی کارروائی چند روز قبل ترک سرحد سے محض تین میل دور شام کے صوبے Idlib کے گائوں Berisha میں امریکی ڈیلٹا فورس نے داعش (ISIS) کے امیر ابو بکر بغدادی کے خلاف کی۔ اس کی مخبری خود اس کے اپنے ہی برادرِ نسبتی کے ذریعے عراقی انٹلیجنس کی وساطت سے امریکیوں تک پہنچی۔  8جنگی ہیلی کاپٹر پر آئے کمانڈوز نے پہلے مکان کے باہر کھڑی گاڑی کو نشانہ بنایا پھر باآواز بلند عربی میں اعلان کیا  ابو بکر بغدادی اپنے آپ کو ہمارے حوالے کر دو اس کے بعد دھماکے سے مکان کی پچھلی بیرونی دیوار توڑی، اسی دوران داعش  (ISIS) کے محافظوں یا جہادیوں سے جھڑپ ہوئی جس میں داعش (ISIS) کے 9 جنگجو مارے گئے۔  جیسے ہی امریکی فوجی قریب پہنچے، ابو بکر بغدادی سرنگ کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے جب امریکی کتے نے ان کا پیچھا کیا  تو انہوں نے خود کو خودکش جیکٹ کے دھماکے سے اڑا لیا جس سے سرنگ میں موجود ان کے تین بیٹے بھی ہلاک ہو گئے۔  لاش نکال کر ان کا ڈی این اے کیا گیا تو شناخت کی تصدیق ہو گئی۔

امریکی کمانڈوز نے متعلقہ کمپائونڈ سے حساس معلومات و مواد اپنی تحویل میں لے لیا یوں کوئی دو گھنٹے میں یہ خطرناک آپریشن اختتام پذیر ہوا  جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے براہ راست ملاحظہ کیا اور مابعد وائٹ ہائوس سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے آج کی دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کو انصاف فراہم کر دیا ہے جس کی ترکی، عراق، شام اور سعودی عرب نے بھی تحسین کی ہے۔ امریکی صدر کی طرف سے یہ اعلان شائد اس لیے بھی ضروری سمجھا گیا کہ ماقبل تین، چار مواقع پر اس نوع کی جعلی خبریں پھیلتی رہی ہیں کہ داعش (ISIS) کے سربراہ فلاں حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں مگر پھر ان کی تردید آتی رہی ہے جبکہ اس مرتبہ یہ رپورٹ قطعی و مصدقہ ہے بلکہ اس سے اگلے ہی روز دوسرے آپریشن میں بغدادی کے Right hand اور نائب Abu Hassan al-Muhajir کو بھی ہلاک کر دیا گیا ہے۔ جیسے اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد اس کی لاش کو سمندری لہروں کی نذر کر دیا گیا تھا کچھ اسی نوع کا معاملہ ابو بکر بغدادی کے ساتھ بھی کیا گیا ہے۔

اب ایک طائرانہ جائزہ پیش کرتے ہیں کہ ابو بکر البغدادی کون تھا؟ داعش (ISIS) کیا ہے؟ اور وہ اس کا سربراہ کیسے بنا۔  ابو بکر بغدادی 1971ء میں بغداد کے شمالی علاقے سامرہ میں پیدا ہوا۔ اصلی نام Ibrahim Awwad Ibrahim al-Badri  تھا۔ 1996ء میں یونیورسٹی آف بغداد سے اسلامیات میں گریجوایشن کی پھر صدام حسین یونیورسٹی فار اسلامک سٹڈیز سے علوم اسلامیہ میں 1999 ء میں ماسٹر اور مابعد 2007ء میں قرآنی علوم میں پی ایچ ڈی کی۔  2003میں امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو البغدادی بغداد کی مسجد میں خطابت و امامت کے فرائض سرانجام دے رہے تھا۔ دو بیویوں اور 6 بچوں کے ساتھ بغداد کے طوبچی علاقے میں رہائش پذیر تھا۔ امریکہ مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے امریکی فوج نے اسے 2004ء میں گرفتار کر کے بقعہ کی جیل میں بند کر دیا تھا۔  پانچ سال بعد جب رہا ہوا تو عراق میں Abu Musab al-Zarqawi اور ان کی القاعدہ کا خاصا زور تھا سو اس نے اس میں شمولیت اختیار کر لی۔

ابوبکر بغدادی اپنے علم و فضل میں ہی نہیں اپنی شعلہ بیانی میں بھی لاثانی تھا اس لیے اپنی جگہ مضبوط بناتے ہوئے اتنی مقبولیت حاصل کر لی کہ بعض اختلافات کے باعث اپنا الگ گروپ بنانے میں کامیاب ہو گیا جسے بعد ازاں داعش (ISIS) کا نام دیا گیا۔ عربی زبان میں داعش (ISIS) مخفف ہے ad-Dawlah al-Islāmiyah fī ‘l-ʿIrāq wa-sh-Shām انگریزی میں اسے ISIS لکھا یا بولا جاتا ہے۔  اس کی بنیادی شہرت شدت پسند سلفی مسلک عسکری گروہ کی ہے جو خلافت کی طرز پر عالمی اسلامی ریاست کا قیام چاہتی ہے  جس کا آغاز بقول ابو بکر بغدادی عراق و شام سے ہو چکا ہے کیونکہ اس نے 2014ء میں عراقی شہر Mosul کی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ پیش کرتے ہوئے نہ صرف اپنی خلافت کا باضابطہ اعلان کیا  بلکہ خطبہ جمعہ میں اپنی خلافت کے اظہار کو لازم ٹھہرایا کیونکہ اس اعلان سے قبل وہ شام اور عراق کے کئی خطے بشمول Al-Fallujah اور Al-Ramadi پر قبضے جما چکا تھا۔  مغربی عراق میں جہاں سنیوں کی اکثریت ہے 2011ء سے جہادی سرگرمیاں چھا چکی تھیں۔ یہی خطے ہیں جہاں صفین کی تاریخی جنگیں لڑی گئی تھیں۔ جب شامی صدر بشار الاسد نے سنی مسلمانوں پر مظالم ڈھانا شروع کیے تو ابو بکر بغدادی کی تحریک کو خوب بڑھاوا ملا،  اپنے زیر قبضہ خطوں اور شہروں میں اس نے اپنا خود ساختہ شرعی نظام قائم کرنے کی کاوشیں کیں۔  Faqah اور Muftiyan شرع متین کے بورڈ بنائے گئے تھے جن سے باقاعدہ فتاوی حاصل کیے جاتے تھے اور اپنے تئیں شرعی سزائیں تک لاگو کی گئی تھیں۔

2015میں اردن کے پائلٹ کو جب مخصوص لباس پنہا کر پنجرے میں بند کرتے ہوئے تیل ڈال کر جلایا گیا تو اس اذیت ناک موت نے مغربی دنیا میں داعش (ISIS) کے خلاف ہلچل مچا دی۔ علاوہ ازیں اہلِ تشیع کے ساتھ ساتھ جب مسیحیوں کو قتل کرنے اور درگاہوں کو بت پرستی کے اڈے قرار دیتے ہوئے اڑایا جا رہا تھا تو اس کے خلاف نفرت مزید بڑھ گئی حالانکہ ماقبل خود مغرب سے مسلمان نوجوان لڑکے، لڑکیاں اس کے پاس جہاد میں شمولیت کے لیے پہنچ رہے تھے۔ داعش  (ISIS) کی حکومت اندرونی طور پر اسلامی شعار کی پابندی میں حد سے زیادہ شدت برت رہی تھی  مگر مخالف مسلک والوں کے خلاف منافرت میں وہ القاعدہ اور طالبان سے بھی کہیں آگے چلی گئی تھی۔ بہرحال یہ سب باتیں مل کر داعش  (ISIS) کے زوال کا باعث بنیں اور بالآخر اس کے بانی ابو بکر بغدادی کا خاتمہ ہو گیا۔  امید ہے آنے والے دنوں میں اس کی باقیات کا بھی پوری طرح خاتمہ ہو جائے گا اور راسخ العقیدہ عناصر کو یہ سوچنا پڑے گا  کہ آج کے دور میں شدت پسندی و انتہا پسندی کا کوئی مستقبل ہے اور نہ دہشت گردی کیلئے کوئی گنجائش، چاہے وہ کتنے ہی مقدس ارادوں امنگوں اور نعروں کے ساتھ آئے۔

No comments.

Leave a Reply