یوکرائن کے معاملے میں ٹرمپ کے احکامات پر عمل کیا، گورڈن سونڈلینڈ

امریکا کے سفیر گورڈن سونڈلینڈ

امریکا کے سفیر گورڈن سونڈلینڈ

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز ٹائم

یورپی یونین میں امریکا کے سفیر Gordon Sondland نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کے کارروائی کی سماعت کے دوران بتایا ہے کہ انہوں نے یوکرائن سے صدر کے سیاسی حریف کے خلاف کارروائی کے بدلے وائٹ ہائوس میں ملاقات کے معاہدے کی کوشش ڈونلڈ ٹرمپ کے احکامات کے مطابق کی تھی۔ غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ‘اے ایف پی’ کے مطابق ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر ہونے والی سماعت کے دوران Gordon Sondland نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ امریکی صدر 2020 ء کے صدارتی انتخاب میں ان کے بڑے حریف Joe Biden کے خلاف تحقیقات کے لیے یوکرائن پر دبائو ڈال رہے تھے۔ Gordon Sondland کی گواہی پر سب کی خصوصی طور پر نظریں تھیں کیونکہ وہ ٹرمپ کے ساتھی تھے۔

امریکی ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے Gordon Sondland نے کہا کہ ہم نے صدر کے حکم پر عمل کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی سفارتکاروں پر دبائو ڈالا تھا کہ وہ ان کے ذاتی وکیل اور نیو یارک کے سابق میئر  Rudy Giulianiکے ساتھ کام کریں۔ Gordon Sondland کا کہنا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرائن کے نئے صدر Volodymyr Zelensky کو ملاقات کی پیشکش کی تھی جبکہ Rudy Giuliani نے مطالبہ کیا تھا کہ کیف، عوامی سطح پر اس بات کا اعلان کرے کہ وہ اس گیس کمپنی کے خلاف تحقیقات کر رہا ہے جس میں Joe Biden کے بیٹے Hunter بڑے عہدے پر فائز تھے۔ Rudy Giuliani ، Volodymyr Zelensky سے یہ بھی چاہتے تھے کہ وہ بڑے پیمانے پر مسترد کی گئی اس سازشی تھیوری کی بھی تحقیقات کریں کہ یوکرائن نے جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کے سرور پر شواہد پلانٹ کیے تاکہ یہ دکھایا جا سکے کہ 2016 ء کے صدارتی انتخاب میں روس نے مداخلت کی۔

Gordon Sondland نے کہا کہRudy Giuliani کی درخواست ان تحقیقات کے بدلے وائٹ ہائوس میں یوکرائنی صدر کی امریکی ہم منصب سے ملاقات کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں کبھی اس بات کا واضح جواب نہیں ملا کی کہ وائٹ ہائوس نے یوکرائن کی 39 کروڑ 10 لاکھ ڈالر کی سیکیورٹی امداد کیوں معطل کی جو روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ اس بات کا تعلق بھی اس تحقیقات سے تھا جو ڈونلڈ ٹرمپ چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یہ امداد معطل کرنے کے سخت مخالف تھے کیونکہ یوکرائن کو روسی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ان فنڈز کی ضرورت تھی۔ Gordon Sondland کے اس بیان کے بعد Rudy Giuliani پر دبائو بڑھنے کا امکان ہے جن کے یوکرائن میں تجارتی مفادات بھی وابستہ ہیں اور جنہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی سماعت میں بیان ریکارڈ کرانے یا دستاویزات دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس سے ریپبلکن کی ٹرمپ کو بچانے کی اس کوشش کو بھی نقصان پہنچے گا جس میں ان کا کہنا تھا کہ Gordon Sondland  اورRudy Giuliani نے یوکرین میں سفارتی چینلز استعمال کرنے کے بجائے اپنے طور پر کوششیں کیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام اور مواخذے کی کارروائی

خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے ڈیموکریٹک حریف اور نائب صدر Joe Biden کو نقصان پہنچانے کے لیے یوکرائن کے صدر سے مدد طلب کر کے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرائن کے صدر کے مابین گفتگو کی ٹرانسکرپٹ منظر عام پر آنے کے بعد امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر Nancy Plossi نے کہا تھا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر عہدے اور اختیار کا غلط استعمال کرنے کے الزامات کے تحت مواخذے کی کارروائی شروع کی جائے گی۔ ٹرمپ پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنے ڈیموکریٹک حریف اور نائب صدر Joe Biden اور ان کے بیٹے کو نقصان پہنچانے کے لیے غیر ملکی قوتوں سے مدد طلب کر کے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی اور اپنے ذاتی فوائد کے لیے امریکی خارجہ پالیسی کا غیر قانونی استعمال کیا۔ الزامات کے مطابق ریپبلکن صدر ٹرمپ نے یوکرائن کی تقریبا 40 کروڑ ڈالر کی امداد روکی اور یوکرائن میں توانائی کے شعبے میں کام کرنے والے اپنے سیاسی حریف Joe Biden کے بیٹے ہنٹر Joe Biden کے خلاف تحقیقات کے لیے یوکرائنی حکام پر دبائو ڈالا۔ ٹرمپ نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے کچھ غلط نہیں کیا اور مواخذے کی کارروائی کو ‘وچ ہنٹ’ قرار دیا تھا۔ ان کے مواخذے کی کارروائی کے دوران اب تک کئی اہم افراد کے بیانات ریکارڈ کیے جا چکے ہیں جن میں یوکرائن میں قائم مقام امریکی سفیر ولیم ٹیلر کی گواہی بھی شامل ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس مواخذے کی کارروائی کو ٹیلی ویژن پر براہ راست نشر کیا جا رہا ہے جہاں کروڑوں امریکی ناظرین اس کارروائی کو براہ راست دیکھ سکتے ہیں جبکہ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کے 2020 ء کے صدارتی انتخاب پر انتہائی سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی تاریخ میں آج تک صرف دو امریکی صدور کا مواخذہ ہوا ہے، جن میں 1998 میں بل کلنٹن جبکہ 1868ء میں اینڈریو جانسن کو مواخذے کا سامنا کرنا پڑا تھا، ان دونوں صدور کو سینیٹ نے مواخذے کے باوجود الزامات ثابت نہ ہونے پر برطرف نہیں کیا تھا۔ تاہم 1974ء میں صدر رچرڈ نکسن نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا جہاں واٹرگیٹ اسکینڈل منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی شروع کرنے کی درخواست کی گئی تھی۔اگر ٹرمپ پر مواخذے کی کارروائی کے دوران یہ الزامات ثابت ہو جاتے ہیں تو وہ مواخذے کی بنیاد پر برطرف کیے جانے والے پہلے امریکی صدر بن جائیں گے۔

No comments.

Leave a Reply