مظلوم فلسطینیوں کی صدا کون سنے گا؟

فلسطینیوں کے قتل عام کے پیچھے اسرائیلی ایجنڈا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے

فلسطینیوں کے قتل عام کے پیچھے اسرائیلی ایجنڈا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے

نیوز ٹائم

بہت سارے اسلامی ممالک بظاہر اسلامی ملک ہیں لیکن درحقیقت وہ قضیہ فلسطین کی پشت پر خنجر گھونپنے والوں میں سے ہیں وہ بجائے اس کے کہ فلسطینی عوام کی حمایت کریں امریکا اور صہیونی ریاست کے مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ اسرائیل کا ظلم خطے میں بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ مگر افسوس خلیجی ریاستیں اسرائیل سے متعلق نرم گوشہ رکھے ہوئے ہیں۔ گزشتہ دنوں سے اسرائیلی جارحیت مسلم امہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو آگاہ کر رہی ہیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق اب تک 32 سے زیادہ فلسطینی شہید درجنوں کے قریب زخمی ہو چکے ہیں۔ اسرائیلی حکام دعوی کر رہے ہیں کہ انہوں نے فلسطین کے متحرک کمانڈر Baha Abu Al-Atta  کو شہید کر دیا ہے۔ فلسطینیوں کے قتل عام کے پیچھے اسرائیلی ایجنڈا کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اسرائیلی شدت پسند بیت المقدس میں موجود مسجد اقصی کو منہدم کرنا چاہتے ہیں اور بھارت کی طرح بتدریج فلسطین زمین پر قبضہ جما کر فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالنا چاہتے ہیں یہ تمام تر جارحانہ اقدامات گریٹر اسرائیل کا خواب پورا کرنے کی ناکام کوششیں ہیں۔  فلسطین اپنی خاص جغرافیائی محل وقوع، زرخیز زمین، اور یہودیوں و مسلمانوں کی مذہبی یادگاروں کی بنیاد پر تاریخ میں ہمیشہ نشیب و فراز کا حامل رہا ہے  Jeddah Syedna Ibrahim کی عراق سے سرزمین فلسطین پر ہجرت اور اس کے بعد Suleman کی یہاں پر عظیم تاریخی حکومت سے لے کر Bakht Al Nasr کی حکومت کے زوال کے پس منظر میں جا بجا اس علاقہ میں مختلف قبائل کے درمیان باہمی اختلاف و انتشار نظر آتا ہے۔

پہلی جنگ عظیم کے موقع پر ڈاکٹر Dr. Wiedemann نے انگریز حکومت سے وہ مشہور پروانہ حاصل کر لیا جو اعلان Lord Arthur Balfourr کے نام سے معروف تھا۔  یاد رہے کہ اعلان Lord Arthur Balfourr کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی 5 فیصد بھی نہ تھی اس موقع پر Lord Arthur Balfourr اپنی ڈائری میں لکھتا ہے۔ ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صہیونیت ہمارے لیے ان 7 لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین میں اِس وقت آباد ہیں اس کے بعد یہودیوں کی تعداد جو 1917ء تک 25000 تھی۔ 1939 تک 450 لاکھ جا پہنچی ایک مکمل منصوبے کے تحت دنیا بھر کے یہودیوں کو ارض فلسطین میں بسانا شروع کیا اس عمل کا مقصد یہودیوں کی خواہش قومی وطن کی جگہ قومی ریاست کا درجہ حاصل کرنا تھا۔

1947میں برطانیہ نے مسئلہ فلسطین کو اقوام متحدہ میں پیش کر دیا اور 1947ء ہی میں فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اہل کفر کی اجتماعی سازش نے ارض فلسطین میں اہل یہود کی راہ ہمیشہ کی لیے ہموار کر دی مسلم ممالک کی کمزور پالیساں ناکامی ان کا منہ چڑاتی رہیں ابھی تک چڑا رہی ہیں، چشم فلک روز دیکھتا ہے کہ کس طرح مسلمانوں کے ساتھ ظلم و ستم کیا جاتا ہے اور عالم اسلام مدہوشی کی تصویر بنے تماشا دیکھتا رہتا ہے۔  عالم اسلام کے حکمرانوں کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہیں، کان ناکارہ اور زبانوں پر خاموشی کے تالے لگائے ہوئے ہیں۔ ان دنوں اہل فلسطین بے یارو مددگار اسرائیلی مظالم کا سامنا کر رہے ہیں اور اسرائیلی سفاک فوجی ان پر گولیاں برسا رہے ہیں۔  اقوام عالم کو اس اسرائیلی درندگی کا سخت نوٹس لینا چاہیے تاکہ انسانی زندگی کو لاحق خطرات سے محفوظ رکھا جا سکے  مگر افسوس ماحولیات کے تحفظ کے بات کرنے والے نام نہاد بین الاقوامی حقوق ایجنسیاں خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتی ہیں ۔

دوسری جانب پاکستانی وزات خارجہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے فلسطین میں اسرائیلی فوج کی بمباری کی مذمت کی ہے، عالمی برادری فلسطین میں عالمی قوانین کی خلاف ورزی کا بھی نوٹس لے۔  اسرائیلی افواج معصوم فلسطینیوں پر بمباری کر رہی ہیں، جس سے کئی معصوم فلسطینی شہید ہوئے۔  واضح رہے کہ فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی افواج کے حملوں میں شدت آ گئی ہے، رہائشی علاقوں پر بمباری میں 32 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، غزہ میں بے رحم صہیونی فورسز آبادیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں،  فورسز کی جانب سے فضائی حملے بھی جاری ہیں۔

عالم اسلام کو متحد ہو کر فلسطین اور کشمیر تنازع کو ختم کرنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرنی چاہیے یہ مسلم حکمرانوں پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔  اب وقت آ گیا ہے اس فرض اور قرض کو چکا دیا جائے اور دنیا کو یہ باور کرا دیا جائے کہ اب غاصبانہ اقدامات کی تاریخ کا باب ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکا یہ تب ہوگا جب عالم اسلام متحد ہو کر جسد واحد کی طرح ایک دوسرے کے حقوق کا تحفظ اور احساس کریں گے۔

No comments.

Leave a Reply