نواز،شہباز سمیت 21 افراد پر مقدمہ

لاہور ہائی کورٹ نے مقدمے کے اندراج کے سلسلہ میں سیشن کورٹ کے حکم پر عمل کرنے کا حکم

لاہور ہائی کورٹ نے مقدمے کے اندراج کے سلسلہ میں سیشن کورٹ کے حکم پر عمل کرنے کا حکم

لاہور ۔۔۔ نیوز ٹائم

عدالت کے حکم پر سانحہ ماڈل ٹائون کا مقدمہ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ پنجاب سمیت 21 افراد کے خلاف درج کر لیا گیا۔ 9 مقتدر سیاسی شخصیات اور 12 پولیس و انتظامی افسران کے خلاف قتل، اقدام قتل، ڈکیتی، اعنت جرم اور جلائو گھیرائو کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ فیصل ٹائون پولیس نے ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن منہاج القرآن انٹرنیشنل کی رپورٹ پر سانحہ ماڈل ٹائون کا مقدمہ نمبر 696 بجرم 109,149,148,506,427,395,324,302 ت پ درج کیا۔ 46 گواہاں رکھے گئے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے مقدمے کے اندراج کے سلسلہ میں سیشن کورٹ کے حکم پر عمل کرنے کا حکم دیا تھا جس پر پنجاب حکومت نے کوئی چارہ نہ پا کر آئی جی پولیس پنجاب کو مقدمہ درج کرنے کی اجازت دے دی۔ وزیر اعظم نواز شریف، حمزہ شہباز شریف ایم این اے، سابق صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ، وفاقی وزراء خواجہ سعد رفیق، خواجہ محمد آصف، پرویز رشید، چودھری نثار علی خان، وزیر مملکت عابد شیر علی، سابق قائم مقام ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبد الجبار، سابق ایس پی ماڈل ٹائون ڈویژن طارق عزیز، سابق ایس پی سیکیورٹی سلمان علی، سابق ایس پی ہیڈ کوارٹرز معروف صفد واہلہ، ایس پی عمر ریاض چیمہ متعدد سینئر پولیس افسران، ڈی ایس پی ماڈل ٹائون آفتاب پھلر وان، ایس ایچ او تھانہ کاہنہ چودھری اشتیاق، ایس ایچ او نشتر کالونی سب انسپکٹر احمد مجید عثمان، سابق ایس ایچ او رضوان قادر ہاشمی اور دوسرے پولیس اہلکاروں کے علاوہ گلو بٹ کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ڈی آئی جی عبد الجبار نے منہاج القرآن کی انتظامیہ کو بتایا تھا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور رانا ثناء اللہ کی طرف سے سخت حکم آیا ہے کہ قادری خاندان کا نام و نشان مٹا دو خواہ جتنی بھی جانیں لینا پڑیں۔ ڈی آئی جی عبد الجبار کے حکم پر ان کے گن مین نے فائرنگ کر کے تنزیلہ امجد زوجہ امجد اقبال کو ہلاک کر دیا جبکہ ایس پی طارق عزیز کے حکم پر ان کے گن میں نے فائرنگ کر کے شازیہ مرتضیٰ زوجہ مرتضیٰ حنیف کو ہلاک کر دیا۔ بعد ڈی آئی جی آپریشنز اور ایس پی کے حکم پر فائرنگ سے دوسرے افراد ہلاک ہوئے۔ مقدمہ کے اندارج سے قبل آئی جی پولیس پنجاب کی سی سی پی او لاہور سے میٹنگ ہوئی۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی زیر صدارت بھی اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں قانونی ماہرین اور پولیس کے اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر لاہور ہائیکورٹ کے احکامات کی روشنی میں درج کرنے کا حکم دیا۔ پولیس کا بھی اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں آئی جی پنجاب، ماہرین قانون، سی سی پی او ڈی آئی جی آپریشنز ایس پی سی آئی اے، ایس پی لیگل و دیگر افسران نے شرکت کی۔ فیصل ٹائون پولیس سٹیشن کا روزنامچہ اور ایف آئی آر کا رجسٹر سی پی او آفس میں منگوایا گیا جہاں ایڈیشنل سیشن جج اور لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن منحاج القرآن جواد حامد کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا۔ آئی جی پنجاب مشاق سکھیرا کا کہنا ہے کہ مقدمے میں وہی دفعات لگائی گئی ہیں جو قانون کے مطابق بنتی ہیں۔ سی سی پی او لاہور امین وینس کے مطابق مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات نہیں لگائی گئیں۔ ادارہ منہاج القرآن کے وکیل منصور آفریدی نے میڈیا کو بتایا کہ ہماری درخواست کے مطابق ہی مقدمہ درج ہوا ہے۔ واضح رہے کہ 17 جون کو ادارہ منہاج القرآن کے باہر سے بیریئر ہٹانے کے دوران پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں میں تصادم کے نتیجے میں منہاج القرآن کے 14 کارکن جاں بحق اور 80 سے زائد زخمی ہو گئے تھے تاہم پولیس نے منہاج القرآن اور لواحقین کی مدعیت میں مقدمہ درج کرنے کے بجائے پولیس کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا تھا۔

No comments.

Leave a Reply