جان ایف کینیڈی تا بینظیر بھٹو، قتل

جان ایف  کینیڈی تا  بینظیر  بھٹو، قتل

جان ایف کینیڈی تا بینظیر بھٹو، قتل

نیوز ٹائم

انہونی ہونے تک سب ٹھیک ہی لگتا ہے، آج بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہائی پروفائل شخصیت اہلیہ کے ہمراہ ایک اوپن کار میں بیٹھی امریکہ کے شہر ڈیلس کی ایک سڑک پر جا رہی ہے۔ آگے پیچھے پروٹوکول کی گاڑیاں ہیں۔ سڑک کے دونوں طرف موجود لوگ دیکھ کر ہاتھ ہلا رہے ہیں، جس کا جواب جوڑے کی طرف سے ہاتھ ہلا کر دیا جا رہا ہے۔ عین اس دوران ایک اور ہاتھ بھی حرکت میں ہے جس کی انگلی ٹریگر پر ہے اور وہ ٹِک ٹِک شروع ہو چکی ہے جو امریکہ کو بدلنے والی ہے۔  اسی ہجوم یا پھر کسی عمارت پر، اسی ہاتھ کے پیچھے وہ شخص موجود ہے جس کی طرف کسی کی توجہ نہیں۔ پھر کیا ہوا، سے پہلے یہ جانتے ہیں کہ یہ ہے کون، جو سرمقتل ہی نہیں آیا، مسلسل بڑھتا بھی جا رہا ہے۔

جان ایف کینیڈی:

جان ایف کینیڈی امریکہ کے مقبول ترین صدور میں سے ہیں۔ وہ 35 ویں صدر تھے۔ وہ 29 مئی 1917 کو پیدا ہوئے۔ ہاورڈ کالج سے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے امریکی بحریہ میں بھی خدمات انجام دیں جبکہ بعد ازاں ایوان نمائندگان کے رکن بنے اور 1946ء سے 1952ء تک اس عہدے پر رہے۔  1952 سے 1960ء تک سینیٹ کے رکن کے طور پر کام کیا۔ ان کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے تھا۔  20 جنوری 1961ء کو وہ آئزن باور کے عہدے سے ہٹنے پر صدر بنے۔  ان کا یہ جملہ کہ آپ یہ نہ پوچھیں کہ ملک آپ کے لیے کیا کر سکتا ہے بلکہ سوچیں کہ آپ ملک کے لیے کیا کر سکتے ہیں بہت مشہور ہوا۔ ان کو امریکی صدور میں سب سے زیادہ کرشماتی شخصیت کا مالک سمجھا جاتا ہے۔ بعد ازاں ڈیموکریٹس میں یہ اعزاز بل کلنٹن کو حاصل ہوا، جو بڑے فخر سے خود کو کینیڈی کا شاگرد کہتے تھے۔ خاتون اول ہونے کی وجہ سے ان کی اہلیہ جیکولین کینیڈی بہت معروف شخصیت رہیں۔  انہوں نے صدر ایوب کے دور میں پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ جان ایف کینڈی کا دور حکومت تقریباً 3 سال پر محیط رہا۔

کینیڈی کے دور کے اہم واقعات:  ان کے دور میں ہونے والے اہم واقعات میں  کیوبا کا میزائل بحران اور خلائی پروگرام شامل ہیں۔ ان کے زیرسایہ ہی اپالو پراجیکٹ کی بنیاد پڑی۔ بعد ازاں 1969ء میں اسی پروگرام کی وجہ سے نیل آرمسٹرانگ چاند پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ اسی دور میں ہی دیوار برلن کی تعمیر شروع ہوئی۔ افریقہ اور امریکہ کی شہری حقوق کی تنظیمیں زور پکڑتی گئیں۔ اسی طرح کینیڈی کے ہی دور حکومت میں ویتنام میں امریکہ کی مداخلت میں اضافہ ہوا، جبکہ آخری واقعہ وہی ہے جس کا ذکر ابتدائی سطور میں کیا گیا ہے۔

بھٹو کے ساتھ جملہ بازی: صدر ایوب کے دور میں جب ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ تھے اور امریکہ پاکستان پر خاصا مہربان تھا، بھٹو ایک وفد لے کر امریکہ گئے۔ کینیڈی نے انہیں صرف 10 منٹ دینا تھے۔ تاہم جب ملاقات ہوئی تو دو گھنٹے سے زائد جاری رہی۔ کینیڈی، بھٹو سے خاصے متاثر ہوئے۔ ایک ملاقات کے دوران کینیڈی نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا اگر آپ امریکہ میں ہوتے تو میری کابینہ میں شامل ہوتے جس پر بھٹو نے جواب دیا اگر میں امریکہ میں ہوتا تو صدر ہوتا اور آپ میری کابینہ میں ہوتے۔

آئی ہیو اے ڈریم اور کینیڈی:  سیاہ فاموں کے لیے رائج امتیازی قوانین کے خلاف اٹھنے والی تحریک اپنے عروج پر اس وقت پہنچی جب 23 اگست 1963ء کو اس کے روح رواں Martin Luther King نے I Have A Dream  ڈریم نامی تقریر کی جسے ڈھائی لاکھ افراد نے سامنے بیٹھ کر اور کروڑوں لوگوں نے ریڈیو اور ٹی وی پر سنا۔ ان میں جان ایف کینیڈی بھی شامل تھے جو اس وقت وائٹ ہائوس میں تھے۔ انہی کے حکم پر  Martin Luther King کو اگلے روز وائٹ ہائوس بلایا گیا اور زیادہ تر امتیازی قوانین کے خاتمے کی دستاویز پر دستخط ہوئے۔

جب ٹریگر دبا۔۔۔: انہونی ہو کر رہی، آج سے 53 سال قبل آج ہی کے روز دن 12 بج کر 31 منٹ پر اچانک امریکی صدر کا سر پھٹتا اور دماغ اچھلتا دکھائی دیتا ہے۔ کسی کو سمجھ ہی نہیں آئی کہ ہوا کیا ہے لیکن جیسے ہی سر ساتھ بیٹھی جیکولین کی طرف ڈھلکا تو انہوں نے گھبرا کر گاڑی کی ڈگی پر چڑھ کر پیچھے سے اترنے کی کوشش کی،  جنہیں پیچھے سے بھاگتے ہوئے آنے والے سیکیورٹی اہلکار نے سہارا دیا (ویڈیو انٹرنیٹ پر موجود ہے) یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی کہ صدر کو گولی لگ گئی ہے۔ جلد ہی ہسپتال کی جانب سے اعلان کر دیا گیا کہ صدر دنیا میں نہیں رہے۔ پورا ملک ہل کر رہ گیا۔ ابھی قاتلوں کی تلاش شروع کی ہی گئی تھی کہ ڈیلس کے پولیس اہلکار ڈی ٹپٹ کو بھی قتل کر دیا گیا،  تاہم چند ہی گھنٹے میں پولیس نے Lee Harvey Oswald نامی شخص کو قتل کے الزام میں گرفتار کیا۔ دو روز بعد پولیس سٹیشن میں ہی ایک نائٹ کلب کے مالک Jack Ruby نے اسے گولی مار دی، جسے گرفتار کر لیا گیا اور موت کی سزا سنائی گئی تاہم وہ 1967ء میں کینسر کے ہاتھوں جیل میں ہی مر گیا۔

تحقیقات سے کیا نکلا:

جان ایف کینیڈی کے قتل کے بعد صدر Lyndon B. Johnson کی جانب سے تحقیقاتی کمیشن قائم کیا گیا جس کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ گولیاں قریبی عمارت کی چھٹی منزل سے چلائی گئیں جو Lee Harvey Oswald نے چلائیں۔ اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ Lee Harvey Oswald یا Jack Ruby کسی ملکی یا غیر ملکی سازش کا حصہ تھے۔ اس کے بعد بھی تحقیقات ہوتی رہیں۔ 1975 میں John D. Rockefeller فائونڈیشن کی جانب سے کہا گیا کہ اس واقعے میں سی آئی اے کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔ اس کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہا۔ رپورٹس سامنے آتی رہیں۔  درجنوں کتابیں لکھی گئیں لیکن اس کے باوجود کینیڈی کا قتل ایک معمہ ہے کیونکہ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ قاتل اور پھر اس کے قاتل نے یہ قدم کیوں اٹھائے۔

قتل ہونے والے دیگر عالمی رہنما:

کینیڈی سے 12 سال قبل راولپنڈی میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم Liaquat Ali Khan کے نہ صرف قتل بلکہ بعد کے واقعات بھی بہت حد تک کینیڈی کے واقعے سے ملتے جلتے ہیں۔ ان کے قاتل کو بھی موقع پر قتل کر دیا گیا۔ بعد ازاں تحقیقات بھی ہوتی رہیں لیکن آج تک یہ عقدہ نہیں کھل سکا کہ ان کو کس کے ایما پر کیوں قتل کیا گیا۔

بینظیر بھٹو

بینظیر بھٹو

بے نظیر بھٹو بھی ایسے عالمی رہنمائوں میں شامل ہیں۔ انہیں 2007 ء میں اس وقت راولپنڈی کے لیاقت باغ میں گولیوں اور بم حملے کا نشانہ بنایا گیا جب وہ سیاسی اجتماع سے خطاب کے بعد واپس جا رہی تھیں۔ ان کے ساتھ 30 سے زائد افراد بھی ہلاک ہوئے۔ جائے وقوعہ کو فوری طور پر دھلوا دیا گیا۔ کیس سے جڑے دیگر افرد بھی بعد ازاں قتل ہوتے رہے۔ سکاٹ لینڈ یارڈ کی ٹیم تحقیقات کے لیے آئی تاہم یہ کیس بھی آج تک معمہ ہی ہے۔

انڈیا کے بانی Mohandas Karamchand Gandhi کو 30 جنوری 1948ء کو ایک مذہبی تقریب کے دوران قتل کیا گیا۔ قاتل Nathuram Godse اور ساتھی کو گرفتار کیا گیا جنہیں 15 نومبر 1949ء میں پھانسی دی گئی۔ اسی طرح امریکی صدر Abraham Lincoln ، آسٹریا کے Archduke Franz Ferdinand ، Russian revolutionary leader Leon Trotsky ، Malcolm X ، Martin Luther King ، امریکی صدارتی امیدوار Robert Kennedy ، جنوبی کوریا کے صدر Park Chung-hee ،  مصر کے صدر Anwar Sadat ، انڈین وزیر اعظم Indira Gandhi ، سویڈن کے وزیر اعظم Olof Palme ، لبنانی وزیر اعظم Rafic Hariri ، افغان رہنما Ahmad Shah Massoud سمیت دیگر کئی اہم شخصیات کو بھی قتل کیا گیا۔

No comments.

Leave a Reply