جنرل راحیل شریف سیاسی بحران حل کرنے کے لیے عمران خان، اور طاہر القادری سے ملاقاتیں

وزیر اعظم نواز شریف سیاسی بحران کے حل کے لیے جنرل راحیل شیریف سے ملاقات

وزیر اعظم نواز شریف سیاسی بحران کے حل کے لیے جنرل راحیل شیریف سے ملاقات

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

وزیر اعظم نواز شریف کی درخواست پر پاک فوج نے تحریک انصاف، عوامی تحریک اور حکومت کے درمیان مذاکرات کے لیے ثالث اور ضامن بننے پر رضا مندی ظاہر کر دی۔ تحریری معاہدہ ہو گا جس میں ضامن فوج ہو گی۔ عمران خان اور طاہر القادری نے آرمی چیف کو ہاں کہہ دی اور حکومت کو 24 گھنٹے کا وقت دے دیا گیا۔ مذاکرات کی ناکامی پر دونوں نے اپنی احتجاجی تحریک جاری رکھنے کا اعلان کر دیا، اس بات کا اعلان پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری نے اپنے اپنے خطاب میں کیا۔ بعد ازاں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے الگ الگ ملاقاتیں کیں تاکہ متفقہ فارمولا تیار کیا جا سکے۔ یہ ملاقاتیں راولپنڈی میں کی گئیں۔ جنرل راحیل شریف نے پہلے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے ملاقات کی۔ رپورٹ کے مطابق عمران خان نے آرمی چیف سے وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کے مطالبے کو دوہرایا اور سال 2013 ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی سے متعلق اہم انکشافات کئے جس میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور اہم رہنمائوں کے براہ راست ملوث ہونے کے شواہد پیش کئے گے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے الیکشن کمیشن کو فوری طور پر معطل کرنے سمیت ایک آزاد کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جو سال 2013 ء کے الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کی آزادانہ تحقیقات کرے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آرمی چیف وزیر اعظم کے استعفے کے معاملے پر آج ایک مرتبہ پھر نواز شریف سے ملاقات کریں گے۔ بعد میں آرمی چیف نے ڈاکٹر طاہر القادری سے بھی ملاقات کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے حکومت پنجاب کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹائون کی درج ہونے والی ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ ATA 6/7 شامل نہ کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا اور دفعہ کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ ذرائع نے بتایا کہ رات گئے جاری عسکری قیادت کے ساتھ ان ملاقاتوں میں دونوں اطراف سے درمیانہ راستہ نکال کر ملک اور قوم کے وسیع مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسا ڈرافٹ بنانے پر اتفاق کیا گیا جس سے تمام فریق بلا مشروط اتفاق کر سکیں۔ ذرائع کے مطابق ملاقاتوں میں وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا استعفیِِٰ، ایف آئی آر میں نامزد وزرا کی چھٹی، انتخابات میں دھاندلی کی آزادانہ تحقیقات، تصدیق ہونے پر نئے الیکشن کے لیے نگران حکومتوں کا قیام، انتخابی اصلاحات اور مہنگائی کے مارے عوام کے لیے مراعات کے پیکیج پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا استعفیٰ اور سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر میںدہشت گردی کی دفعات کا طلاق آج متوقع ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جنرل راحیل شریف عمران خان اور طاہر القلادری کے مطالبات کی روشنی میں ان سیاسی رہنمائوں سے مشاورت کے بعد تجاویز پر مشتمل ایک پیکیج ڈرافٹ کریں گے جسے معاہدے کی شکل دی جائے گی اور اس معاہدے میں ضامن کا کردار آرمی چیف جنرل راحیل شریف خود ادا کریں گے۔ تجاویز پر مشتمل پیکیج کے ڈرافٹ سے متعلق وزیر اعظم نواز شریف کو بھی آگاہ کیا جائے گا۔ اس حوالے سے حکومت کی نمائندگی وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کر رہے ہیں جو آرمی چیف اور ان سیاسی رہنمائوں سے ہونے والی ملاقاتوں کے درمیان وہاں موجود تھے۔ آرمی چیف سے ملاقات کے بعد دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ میں نے جنرل راحیل سے کہا ہے کہ نواز شریف کے وزیر اعظم رہتے ہوئے دھاندلی کی شفاف تحقیقات نہیں ہو سکتی۔ میں نے اپنے خدشات ظاہر کر دیئے ہیں، نواز شریف کے استعفے کے بغیر بات آگے نہیں بڑھ سکتی۔ جنرل راحیل نے نیوٹرل امپائر کا رول ادا کیا ہے، ان پر پارٹی کا موقف واضح کر دیا ۔ عمران خان نے کہا کہ نواز شریف نے آئی بی کے ذریعے اڑھائی سو کروڑ روپے میڈیا کو دیئے، ایک وکیل کے گھر سے اڑھائی کروڑ روپے چوری ہوئے، ہر کسی کو پتہ ہے وہ کہاں سے آئے۔ ہماری ٹیم آج ن لیگ کے پاس جائے گی اور اس معاملہ پر بات کرے گی۔ حکومت کو آخری چانس دیں گے، ہم اپنے مقصد کے بہت قریب آگئے ہیں۔ آج دوپہر تک استعفیٰ کی بات نہ مانی تو اہم اعلان کروں گا جس میں تحریک کو آگے بڑھانے کا لائحہ عمل ہو گا۔ معاملات طے نہ ہوئے تو پورے ملک میں دھرنے دیں گے، دھرنا جاری رہے گا۔ ہم یہاں سے نہیں اٹھیں گے۔ اس سے پہلے عمران خان نے بھی اپنے آزادی مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ہمیں پیغام بھیجا ہے کہ ہم جو کچھ کرنے جا رہے ہیں اس میں آج تک کی تاخیر کر دیں اور ہمیں بطور ثالث اور ضامن متحارب فریقوں سے مذاکرات کر کے کسی نتیجہ پر پہنچنے دیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی فوج ہماری اپنی فوج ہے، پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی فوج نے ایسا کردار ادا نہیں کیا ہے اور ہمیں ان کی بات ماننے میںکوئی عار نہیں۔ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے بھی اپنے دھرنے کے شرکا سے کہا کہ حکومت نے پاک فوج کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ہے۔ وزیر اعظم نے موجودہ سیاسی بحران کے حل کے لیے آرمی چیف کو ثالث کا کردار ادا کرنے کے لیے کہا ہے۔ آرمی چیف نے نواز شریف اور حکومت کی درخواست پر ہیمیں باضابطہ طور پر پیغام بھیجا ہے کہ کیا اگر وہ ثالث اور ضامن بنیں تو کیا آپ قبول کرتے ہیں؟ نازک صورتحال پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے ثالث کا کردار ادا کرتے ہوئے 24 گھنٹے کا وقت مانگا ہے۔ مذاکراتی ٹیم نے فوج کے نمائندے باقاعدہ شریک ہوں گے۔ طاہر القادری کا کہنا تھا کہ پاک فوج کے ساتھ جو بھی فارمولا طے ہو گا وہ عوام کی پارلیمنٹ میں پیش ہو گا، جسے آپ کی مرضی کے مطابق قبول کیا جائے گا۔ اگر عوام نے اسے مسترد کر دیا تو وہی دما دم مست قلندر ہو گا۔ طاہر القادری نے انقلاب مارچ کے شرکاء سے پاک فوج کو 24 گھنٹے کا وقت دینے کی اجازت مانگی، عوام نے اجازت دے دی جس کے بعد پی اے ٹی سربراہ نے آرمی چیف کی جانب سے دی گئی پیشکش قبول کر لی۔ اسے سے پہلے وزیر اعظم شریف نے جنرل راحیل شریف سے اپنی ایک ہفتہ میں چوتھی ملاقات کی جس میں بہترین قومی مفاد میں معاملہ کے جلد کے لیے مذاکراتی عمل کی بحالی کے لیے ضروری اقدامات اٹھانے پر اتفاق کیا گیا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے آرمی چیف سے سیا سی ڈیڈ لاک ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی جس پر جنرل راحیل شریف رضامند ہو گے۔ نواز شریف اور راحیل شریف ملاقات میں ایف آئی آر کے اندارج کا معاملہ بھی زیر غور آیا۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم نے آرمی چیف کو بتایا کہ حکومت نے معاملات کے حل کے لیے اپنی تمام تر کوششیں کر لی ہیں لیکں حکومتی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں ملاقات میں فریقین کو مطمئن کرنے کے لیے ضمانت کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ وزیر اعظم نے آرمی چیف کو یقین دلایا کہ فریقین کو مطمئن کرنے کے لیے بھی معاہدہ ہو گا اس پر دی جانے والی ضمانت کے مطابق عملدر آمد کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے آرمی چیف کو کہا ہے کوئی غیر قانونی اور غیر آئینی مطالبہ تسلیم نہیں کریں گے۔ کروڑوں افراد کی منتخب پارلیمنٹ کو دو افراد کی خواہشات کی بھینٹ نہیں چڑھایا جا سکتا۔ آرمی چیف نے اس موقع پر کہا کہ طاقت کا استعمال آخری آپشن بھی نہیں ہونا چاہیے۔ عوام اور فوج کو ایک دوسرے کے سامنے نہ کیا جائے۔ فوج کو تصادم سے دور رکھا جائے۔ فوج اپنے بہن بھائیوں پر گولی نہیں چلا سکتی۔ بہتر ہو گا سیاسی قیادت تمام معاملات کو سیاسی انداز میں حل کرے۔

No comments.

Leave a Reply