ایغور مسلمانوں کے مسئلے پر امریکا کی سیاست

چین میں ہزاروں ایغور مسلمانوں کو زبردستی اپنے خیالات بدلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے

چین میں ہزاروں ایغور مسلمانوں کو زبردستی اپنے خیالات بدلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے

نیوز ٹائم

مغربی ذرائع ابلاغ کی طرف سے آج کل ایسی خبریں آ رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ چین میں ہزاروں ایغور مسلمانوں کو زبردستی اپنے خیالات بدلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔  یہ بھی الزام ہے کہ چین میں کچھ ایسی سخت جیلیں بنائی گئی ہیں جہاں نہ صرف چینی مسلمان بلکہ دیگر قیدی بھی زیر حراست ہیں۔ ان مغربی ذرائع ابلاغ کے الزامات کے جواب میں چین کا موقف ہے کہ وہ چین کے مغربی علاقے Xingjiang میں ایسے مراکز چلا رہی ہے جہاں مسلمانوں کو رضاکارانہ طور پر تعلیم و تربیت فراہم کی جاتی ہے۔  آیئے دیکھتے ہیں یہ مسئلہ کیا ہے۔

Xingjiang جس کو عربی میں Shinjak کہا جاتا ہے، چین کے شمال مغربی علاقے میں ایک دریا ہے جسے چین کی سرکاری دستاویزات میں خودمختار کہا جاتا ہے۔ چین کے کل 33 صوبوں میں Xingjiang رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے، اس کا علاقہ ڈیڑھ لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ ہے، جس کے بعد تبت اور اندرون منگولیا کے نمبر ہیں۔ اس طرح صرف یہ تین صوبے چین کے مجموعی رقبے کا 42 فیصد ہیں۔ Xingjiang کی آبادی صرف دو کروڑ ہے، جبکہ تبت کی آبادی صرف 30 لاکھ اور اندرونی منگولیا کی ڈھائی کروڑ ہے۔  اس طرح ان تین سب سے بڑے صوبوں کی آبادی مجموعی طور پر 5 کروڑ سے بھی کم ہے یعنی چین کے 42 فیصد رقبے پر اس کی صرف تین، ساڑھے تین فیصد آبادی مقیم ہے لیکن Xingjiang کا مسئلہ یہ ہے کہ کبھی یہاں صرف ایغور مسلمان ہی بستے تھے مگر بتدریج پچھلے 70 سال میں چین کے دیگر علاقوں سے چینیوں کو لا کر یہاں آباد کیا گیا ہے،  جس کے باعث اب Xingjiang کی دو کرڑو آبادی میں آدھے سے بھی کم رہ گئے ہیں یعنی بہ مشکل ایک کروڑ۔

چین کا سرکاری موقف یہ ہے کہ گزشتہ تین برسوں میں Xingjiang میں مسلم آبادی میں انتہاپسندانہ رجحانات کے خاتمے کے لئے رضاکارانہ طور پر تعلیم دی جا رہی ہے۔  مغربی ذرائع ابلاغ کا یہ دعوی کہ حراستی مراکز میں 10 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو قید رکھا گیا ہے،  بڑا مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے، کوئی ملک کسی علاقے کی اتنی بڑی تعداد کو قید نہیں رکھ سکتا۔  یہ تو ممکن ہے کہ 20,10 ہزار یا حتی کہ لاکھ، ڈیڑھ لاکھ لوگوں کو زیر حراست رکھ لیا جائے، مگر 10 لاکھ کی تعداد میں بہت مبالغہ آرائی معلوم ہوتی ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ یہ بھی الزام لگاتے ہیں کہ ان مراکز میں قید ہر فرد کی زندگی کے ہر پہلو کی نگرانی کی جاتی ہے۔ اب اگر سوچا جائے تو آج، کل کے سماجی میڈیا کے ذریعے دنیا کے ہر خطے میں کسی بھی شخص کی زندگی کے تقریباً ہر پہلو کی نگرانی کی جا سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان حراستی مراکز میں زیر تربیت افراد کو بستر کی ایک مقررہ جگہ فراہم کی جاتی ہے اور قطاریں بنانے اور مقررہ نشستوں پر بیٹھنے کا کہا جاتا ہے۔ ہنر سکھانے کے دوران بھی انہیں مقررہ جگہوں پر ہی ہونا ہوتا ہے اس طرح انہیں نظم و ضبط کا پابند کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں بھی فاٹا اور سوات وغیرہ میں طالبان کے خلاف کارروائی کی گئی تو ایسے تربیتی مراکز بنائے گئے جن میں سابقہ انتہاپسندوں کو پیشہ ورانہ تربیت دی گئی اور انہیں ہنر سکھائے گئے۔ اس عمل میں بظاہر ایسی کوئی برائی نظر نہیں آتی کہ اس کی مذمت کی جائے، ہاں دہشت گردوں کی سرپرستی کی ضرور مذمت کی جانی چاہئے۔ ایک الزام کے مطابق 2017ء میں صرف ایک ہفتے کے دوران 15 ہزار باشندوں کو ان حراستی مراکز میں بھیجا گیا تھا اور اب کہا جا رہا ہے کہ انہیں صرف اس وقت رہا کیا جائے گا جب وہ ظاہر کر سکیں کہ انہوں نے اپنی حرکتیں ٹھیک کر لی ہیں اور وہ ماضی کی انتہاپسندانہ سرگرمیوں کو غیر قانونی سمجھنے کا اعلان کریں۔ اس کے بعد بھی کمیونسٹ پارٹی کی کمیٹیاں اس بات کا جائزہ لیتی ہیں کہ کس کو چھوڑا جائے اور کس کو نہیں۔

چین کا سرکاری موقف یہ ہے کہ ان اقدامات سے مقامی لوگوں کی حفاظت ہوتی ہے اور Xingjiang میں گزشتہ تین سال سے کوئی دہشت گرد حملہ نہیں ہوا ہے۔ چین کے مطابق دہشت گردوں پر نظر رکھنا اور ان سے متاثر ہونے والے لوگوں کو ٹھیک راستے پر لانا ضروری ہے۔ مسلم آبادی کے غائب ہونے والے لوگوں میں ایک بڑا نام جغرافیہ کے پروفیسر تاشیولات طیب کا ہے جو دو سال قبل تک Xingjiang یونیورسٹی کے سربراہ تھے، پھر اچانک 2017ء میں وہ غائب ہو گئے اور چینی حکام نے بھی اس بارے میں کچھ نہیں بتایا پھر یہ افواہیں اڑنے لگیں کہ پروفیسر طیب چونکہ علیحدگی پسندوں سے ہمدردی رکھتے تھے اس لئے انہیں چینی حکام نے جبری طور پر گمشدہ کر دیا ہے۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ پروفیسر طیب پر خفیہ مقدمہ چلا کر انہیں سزائے موت دے دی گئی ہے۔ اسی طرح کئی دیگر ادیبوں اور اساتذہ اور وکلا وغیرہ کے خلاف بھی کارروائیاں کرنے کی خبریں آتی رہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پروفیسر طیب 2010ء سے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے رکن بھی تھے۔ ان تمام الزامات کو استعمال کرتے ہوئے پچھلے مہینے امریکا نے 28 چینی کمپنیوں کو بلیک لسٹ کرنے کا اعلان کیا اور کہا کہ مسلمانوں سے بدسلوکی برداشت نہیں کی جائے گی اور اس میں ملوث چینی اہلکاروں پر ویزے کی پابندیاں لگائی جائیں گی جن کا اطلاق چینی حکومت، کمیونسٹ پارٹی اور دیگر متعلقہ افراد پر ہو گا۔

امریکا مسلسل یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ چینی حکومت نہ صرف مسلم آبادی بلکہ قزاق اور کرغیز مسلم باشندوں سے بھی بدسلوکی کرتی ہے۔ اس طرح امریکا، چین کو انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کا مرتکب قرار دیتا ہے اور چین اسے اندرونی معاملات میں مداخلت گردانتا ہے۔ چین کو چاہئے کہ وہ Xingjiang اور تبت وغیرہ کے علاقوں میں مقامی لوگوں کی ثقافت، مذہب اور زبان کا تحفظ اور ترویج کرے۔ چین بھی پاکستان کی طرح ایک کثیر القومیتی ملک ہے جہاں کئی قومیتیں بستی ہیں جنہیں زبردستی اپنی شناخت بدلنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

سوویت یونین نے 70 سال لوگوں کے ذہنوں سے زبردستی مذہب نکالنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ چین بھی ایسا نہیں کر سکتا۔ انتہاپسندی، بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ان سب کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکا جا سکتا۔ ہر ایک کو اپنے عقیدے پر قائم رہنے کا حق ہے بشرط یہ کہ وہ اپنا عقیدہ دوسروں پر مسلط نہ کرے اور نہ ہی تشدد کا راستہ اپنائے۔ یہی راستہ بہتر ہے۔

No comments.

Leave a Reply