السیسی حکومت کا مخالفین کو نشانہ بنانے کیلئے متوازی نظام انصاف قائم ہے، ایمنسٹی انٹرنیشنل

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے انسداد دہشت گردی عدالتیں اور اسپیشل پولیس فورس ہے

ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے انسداد دہشت گردی عدالتیں اور اسپیشل پولیس فورس ہے

پیرس ۔۔۔ نیوز ٹائم

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے خبردار کیا ہے کہ مصر کے صدر عبد الفتح السیسی کی حکومت نے ناقدین اور مخالفین کے خلاف کریک ڈائون کے لیے متوازی نظام انصاف تشکیل دے دیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے بنیادی ذرائع ‘ایس ایس ایس پی’ کے نام سے مشہور ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا تھا کہ مخالفین کو نشانہ بنانے کے لیے انسداد دہشت گردی عدالتیں اور اسپیشل پولیس فورس ہے سپریم اسٹیٹ سیکیورٹی پراسیکیوشن سروس، انسداد دہشت گردی عدالتیں اور اسپیشل پولیس فورس ہے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے فرانس میں قائم دفتر کے ڈائریکٹر Katia Rouxنے پیرس میں 60 صفحات پر مشتمل رپورٹ کی افتتاحی تقریب میں کہا کہ سیسی کے مصر میں حکومت کے تمام ناقدین کو خطرناک دہشت گردوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ پرمننٹ اسٹیٹ آف ایکسپشن کے نام سے جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صورت حال بدتر ہو رہی ہے، دبائو بڑھ رہا ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم کا کہنا تھا کہ مصر میں ایس ایس ایس پی کی جانب سے ان کیسز میں تیزی دیکھی گئی ہے جو 2013 ء میں 529 ء تھے اور گزشتہ برس تک وہ تعداد بڑھ کر 1739 تک پہنچ گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پراسیکیوشن جو ریاستی سلامتی کے خطرے کا باعث بننے والی سرگرمیوں سے نمٹتی ہے، وہ مسلسل سیاسی مخالفین اور اخوان المسلمین سے تعلق رکھنے والے اسلامی رہنمائوں کی تفتیش کرتی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مشرق وسطیٰ میں تحقیق اور قانونی معاملات کے سربراہ Philip Lutherنے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایس ایس ایس پی جبر کا بنیادی ذریعہ ہے جس کا پہلا کام ناقدین پر دبائو بڑھانے اور حراست میں رکھنا ہے جبکہ اس سب کو وہ انسداد دہشت گردی کا نام دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایس ایس ایس پی، مصر کی نیشنل سیکیورٹی ایجنسی (این ایس اے)، اسپیشل پولیس فورس اور انسداد دہشت گردی عدالتیں مخالفین کی گرفتاریوں، ان سے تفتیش اور پرامن شہریوں کے خلاف کارروائی سے متوازی نظام انصاف کے طور پر سامنے آ گئی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی زیر حراست افراد کو طویل عرصے سے بغیر مقدمے کے گرفتار رکھا گیا ہے جنہیں قانونی معاونت تک رسائی کی امید سے بھی محروم کر دیا گیا ہے اور انہیں سخت قید پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کئی افراد کو مہینوں اور کئی برسوں سے بغیر کسی ثبوت، خفیہ پولیس کی تحقیقات کی بنیاد پر اور بغیر کوئی رسائی کے قید میں رکھا گیا ہے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی ‘اے ایف پی’ کو مصری حکومت کی قید سے باہر آنے والے متعدد افراد اور ان کے رشتے داروں نے مشکلات اور سختیوں سے آگاہ کیا۔ رواں برس جولائی میں قاہرہ سے گرفتار ہونے والے انسانی حقوق کے رکن Ramy Shaath کی اہلیہ Celine Lebrun نے کہا کہ مصر میں احتیاطی تدابیر کے لیے ایک جبر جاری ہے۔ حکومت کے موقف کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ کہتے ہیں ریاست کسی کو بھی مہینوں یا برسوں کے لیے حراست میں رکھ سکتی ہے اور انہوں نے میرے شوہر پر دہشت گرد گروپ کی معاونت کا الزام عائد کیا ہے اور آخری مرتبہ رواں ہفتے کے اوائل میں وکلا کو نوٹس دیے بغیر پیش کیا گیا۔

فرانس میں سیاسی پناہ لینے والے Emaan Saleh کا کہنا تھا کہ انہیں اسی طرح کے الزامات پر 2000 ء کے بعد 9 مرتبہ گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ قیدیوں کو دنیا سے کٹنے کا دکھ ہوتا ہے، اگر آپ جبری گمشدگی کے متاثرین میں شامل ہیں تو وہ ایسا ہی ہے کہ آپ وجود نہیں رکھتے۔ قبل ازیں 25 نومبر کو مصر کی پولیس نے مقامی صحافتی ادارے ‘مدی مصر’ کے دفتر پر چھاپہ مار کر اس سے وابستہ 3 نیوز ایڈیٹرز کو گرفتار کر لیا تھا۔ مصر کی آزاد نیوز سائٹ کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز ہمارے دفاتر میں چھاپہ مار کر جا چکی ہیں اور ہمیں صرف ہمارے فونز اور لیپ ٹاپس واپس ملے ہیں، lena Atala ، Mohammad Hamama اور Rana Mammduwa کو پراسیکیوشن سروس اپنے ساتھ لے گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر جاری پوسٹ میں لکھا کہ سادہ لباس میں ملبوس 9 افسران نے کئی گھنٹوں تک ویب سائٹ کے صحافیوں سے پوچھ گچھ کی،  ان سے فونز اور لیپ ٹاپ ان لاک کر کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔

یاد رہے کہ رواں ماہ ہی اقوام متحدہ نے دوران حراست انتقال کر جانے والے سابق صدر محمد مرسی کی موت کو ریاستی قتل قرار دیتے ہوئے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ ماورائے قانون یا پھانسی کے حوالے سے معاملات کی خصوصی ماہر اگنیز کلامارڈ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر محمد مرسی کو جن حالات میں رکھا گیا تھا اور خصوصا آخری 5 برسوں کو طورا جیل میں قید رکھا گیا اس کو صرف ظالمانہ کہا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر مرسی کی موت جن حالات کو برداشت کرنے کے بعد ہوئی اس کو ریاستی قتل کہا جا سکتا ہے۔ Agnès Callamard نے کہا کہ ہمیں کئی ذرائع سے مصدقہ ثبوت حاصل ہوئے ہیں کہ مصر بھر میں ہزاروں قیدی ایسے ہیں  جو اپنے حقوق سے محرومی کا شکار ہیں اور ان میں کئی کی جانوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر عبد الفتح السیسی کی موجودہ حکومت مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے مسلسل اس طرح کے اقدامات کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ مصر کے سابق صدر ڈاکٹر مرسی 17 جون 2019 ء کو قید کے دوران جاری سماعت کے موقع پر کمرہ عدالت میں انتقال کر گئے تھے۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ ڈاکٹر مرسی دوران سماعت بے ہوش ہو گئے تھے اور کچھ دیر بعد انتقال کر گئے۔ ڈاکٹر محمد مرسی 2012 ء میں مصر میں تحریر اسکوائر پر لاکھوں افراد کے مظاہروں کے نتیجے میں حسنی مبارک کے دہائیوں پر مشتمل اقتدار کے خاتمے کے بعد پہلے آزادانہ انتخابات میں کامیاب ہوئے تھے اور انہیں اخوان المسلمون کی جانب سے صدر کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن ایک سال بعد ہی ان سے استعفے کے مطالبہ کیا جانے لگا اور مصر میں ایک مرتبہ پھر احتجاج شروع ہوئے۔ مصر کے اس وقت کے آرمی چیف عبد الفتح السیسی نے جولائی 2013 ء میں حکومت کو گرا کر خود براجمان ہوئے اور بعد ازاں خود کو صدر منتخب کروا دیا۔

مصری فوج نے اخوان المسلمین کے خلاف کریک ڈائون کرتے ہوئے محمد مرسی سمیت کئی رہنمائوں اور ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا تھا اور دوران سینکڑوں کارکنوں کو قتل کیا گیا اور کئی جیلوں میں انتقال کر گئے۔ محمد مرسی کو جاسوسی، مظاہرین کو قتل کروانے اور جیل توڑنے کے الزامات کے تحت عمر قید، سزائے موت اور 20 سال قید کی سزائیں بھی سنائی گئی تھیں۔

No comments.

Leave a Reply