سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 6 ماہ کی مشروط توسیع دے دی

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

سپریم کورٹ آف پاکستان نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس میں سماعت کے بعد مختصر فیصلہ سناتے ہوئے انہیں 6 ماہ کی مشروط توسیع دے دی۔ عدالت میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے جیورسٹ فائونڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست پر مسلسل تیسرے روز سماعت کی۔ اس اہم کیس پر سب کی نظریں تھیں کیونکہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت آج رات ختم ہو رہی تھی اور حکومت کے پاس یہ آخری موقع تھا کہ وہ ان کی مدت ملازمت میں توسیع کے اقدام پر عدالت کو مطمئن کرے۔ لہذا اس معاملے پر مسلسل تیسرے روز سماعت کا آغاز صبح 9.30 بجے ہوا، جس کے بعد پہلے ایک بجے تک وقفہ کر دیا گیا،  جس کے بعد سماعت شروع ہونے میں تھوڑی تاخیر ہوئی، وفقے کے بعد سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل اور فروغ نسیم دوبارہ پیش ہوئے اور عدالت کی ہدایت کی روشنی میں انہوں نے نئی دستاویز پیش کی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انتظار پر معذرت خواہ ہیں، جس کے بعد ججز نے دستاویز کا جائزہ لیا اور پھر مختصر فیصلہ سنایا گیا۔

عدالت کا فیصلہ:

عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ آئندہ 6 ماہ کے چیف آف آرمی اسٹاف رہیں گے جبکہ اس عرصے کے دوران پارلیمان آرمی چیف کی توسیع / دوبارہ تعیناتی کے لیے قانون سازی کرے گی۔ عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ عدالت میں آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی یا توسیع چیلنج کی گئی، حکومت اس پر ایک سے دوسرا موقف اپناتی رہی، کبھی دوبارہ تعیناتی اور کبھی دوبارہ توسیع کا کہا جاتا رہا۔ فیصلے کے مطابق صدر مملکت، افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں، آئین کے آرٹیکل 243 میں تعیناتی کا اختیار صدر مملکت کا ہے  لیکن آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا قانون میں ذکر نہیں، آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ محدود یا معطل کرنے کا بھی کہیں ذکر نہیں۔

عدالت کی جانب سے کہا گیا کہ اٹارنی جنرل نے مدت ملازمت کے تعین کے لیے قانون سازی کی قانون سازی کی یقین دہانی کرائی ہے، اٹارنی جنرل کی جانب متعلقہ قانون سازی کے لیے وقت مانگا گیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ معاملہ پارلیمنٹ اور حکومت پر چھوڑ دیتے ہیں، قانون سازی کر کے ہمیشہ کے لیے طے کیا جائے۔ عدالت نے کہا کہ اس سے پہلے آرمی چیف کی تعنیاتیاں روایتی طر یقہ سے ہوتی رہیں، تاہم موجودہ تعیناتی کو پارلیمنٹ کی قانون سازی سے مشروط کرتے ہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہمیں آرمی چیف کی مدت سے متعلق کچھ نہیں ملا، وفاقی حکومت نے 28 نومبر کی سمری پیش کی،  یہ سمری وزیر اعظم کی سفارش پر صدر نے پیش کی، سمری میں قمر جاوید باجوہ کو دوبارہ آرمی چیف تعینات کیا گیا۔ ساتھ ہی فیصلے میں کہا گیا کہ حکو مت آرٹیکل 243 بی اور آرمی ریگولیشن پر انحصار کرتی رہی جبکہ عدالت نے آرمی چیف کی تعیناتی، مدت اور توسیع سے متعلق سوالات کیے۔عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل کسی بھی قانون کا حوالہ نہ دے سکے، ان کا موقف تھا کہ اس حوالے سے ماضی کی روایات پر عمل ہوتا رہا ہے۔

سماعت کا احوال:

جب ایک بجے عدالت میں وقفہ کیا گیا تو حکومت کو ان ہدایت پر عمل کرنے کا کہا تھا۔ بیان حلفی جمع کروائیں کہ اس معاملے پر 6 ماہ میں قانون سازی کریں گے۔

 ترمیمی نوٹیفکیشن: اس ترامیمی نوٹیفکیشن میں ان نکات کی ہدایت کی گئی۔  نوٹیفکیشن سے سپریم کورٹ کا ذکر حذف کیا جائے، آرمی چیف کی 3 سال کی مدت کا ذکر نکالا جائے  آرمی چیف کی تنخواہ و مراعات کو واضح کیا جائے قبل ازیں صبح ہونے والی سماعت میں حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل انور منصور خان دلائل دے دیے اور سابق وزیر قانون فروغ نسیم بھی عدالت میں موجود رہے  جبکہ پاکستان بار کونسل (پی بی سی) کی جانب سے فروغ نسیم کا بار کونسل کا لائسنس بحال کر دیا۔

جنرل کیانی کی ایکسٹینشن، جنرل راحیل کی ریٹائرمنٹ کی دستاویز طلب:

 سماعت کے آغاز میں ہی سپریم کورٹ نے جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن طلب کر لیا، ساتھ ہی سابق فوجی سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کی دستاویز بھی طلب کر لی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنرل (ر) کیانی کی توسیع کس قانونی شق کے تحت کی گئی، ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ جنرل (ر) پرویز کیانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں کیا پینشن ملی تھیں۔ ساتھ ہی سپریم کورٹ نے 15 منٹ کا وقفہ کر دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 15 منٹ میں دونوں چیزیں فراہم کریں تب تک دیگر کیسز سن لیتے ہیں۔ عدالت کے چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے آپ نے کہا ہے جنرل کبھی ریٹائر نہیں ہوتے، اگر آرمی جنرل ریٹائر نہیں ہوتا تو جنرل راحیل شریف کس رول کے تحت ہوئے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے اگر ریٹائر نہیں ہوتے تو پینشن بھی نہیں ہوتی، جائزہ لیں گے کہ جنرل (ر) کیانی کی توسیع کن بنیادوں پر ہوئی تھی،  جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر عدالت کی معاونت کرنا چاہتا ہوں اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ دستاویزات لے آئیں پھر آپ کو تسلی سے سن لیں گے۔ بعد ازاں مختصر سے وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہو گیا ہے۔

سمری سے عدالت کا نام نکالیں، چیف جسٹس:

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سمری میں تو عدالتی کارروائی کا بھی ذکر کیا گیا ہے،  آپ بوجھ خود اٹھائیں ہمارے کندھے کیوں استعمال کرتے ہیں، اپنا کام خود کریں، ہمیں درمیان میں کیوں لاتے ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ عدالت کا نام استعمال کیا گیا تاکہ ہم غلط بھی نہ کہہ سکیں، سمری میں سے عدالت کا نام نکالیں، تعیناتی قانونی ہے یا نہیں وہ جائزہ لیں گے، آج سے تعیناتی 28 نومبر سے کر دی۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ آج تو جنرل باجوہ پہلے ہی آرمی چیف ہیں، جو عہدہ خالی ہی نہیں اس پر تعیناتی کیسے ہو سکتی ہے، لگتا ہے اس بار کافی سوچ بچار کی گئی ہے، تعیناتی ہوئی ہی آئین کے مطابق ہے۔ ساتھ ہی چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کی ایڈوائس والا حصہ سمری سے نکالیں، صدر اگر ہماری ایڈوائس مانگیں تو وہ الگ بات ہے۔ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کو بار بار پڑھتے ہیں تو نئی چیز کھل جاتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم تو پہلی بار پڑھتے ہیں تو کچھ نکل آتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ سمری نوٹیفکیشن میں عدالت کا ذکر نہ کریں، ہمارا ذکر غیر ضروری ہے، سمری میں عدالت کو بھی بریکٹ میں ڈال دیا گیا، عدالت کا سمری سے کوئی تعلق نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت ان الفاظ کو حذف کر دے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تو کہتے ہیں کہ حکومت نے کوئی غلطی نہیں کی۔

سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے نہ مراعات کا، عدالت:

اسی دوران جسٹس منصور نے نکتہ اٹھایا کہ 3 سال کی مدت کا ذکر تو قانون میں کہیں نہیں ہے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سمری میں آرمی چیف کی تنخواہ کا ذکر ہے نہ مراعات کا تذکرہ ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے توسیع ہوتی رہی اور کسی نے جائزہ نہیں لیا، کوئی دیکھتا نہیں کہ کنٹونمنٹ میں کیا ہو رہا ہے، کس قانون کے تحت کوئی کام ہو رہا ہے، اب آئینی ادارہ اس مسئلے کا جائزہ لے رہا ہے، آئینی عہدے پر تعیناتی کا طریقہ کار واضح لکھا ہونا چاہیے۔

آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارت اور سی آئی اے ایجنٹ کہا گیا، چیف جسٹس:

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کل آرمی ایکٹ کا جائزہ لیا تو بھارتی اور سی آئی اے کے ایجنٹ کہا گیا، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ہماری بحث کا بھارت میں بہت فائدہ اٹھایا گیا، سوشل میڈیا کسی کے کنڑول میں نہیں۔ اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں 5th جنریشن وار کا حصہ ٹھہرایا گیا، یہ ہمارا حق ہے کہ ہم سوال پوچھیں، آئینی اداروں کے بارے میں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اسی دوران جسٹس منصور نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے بھی کل پہلی بار آرمی قوانین پڑھیں ہوں گے، آپ تجویز کریں آرمی قوانین کو کیسے درست کریں۔  سماعت کے دوران ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نوٹیفکیشن میں مدت 3 سال لکھی گئی ہے،  اگر زبردست جنرل مل گیا تو شائد مدت 30 سال لکھ دی جائے، ایک واضح نظام ہونا چاہیے جس کا سب کو علم ہو، 3 سال تعیناتی اب ایک مثال بن جائے گی، ہو  سکتا ہے اگلے آرمی چیف کو حکومت ایک سال رکھنا چاہتی ہو۔ اسی دوران جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ واضح ہونا چاہیے جنرل کو پینشن ملتی ہے یا نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل ریٹائر ہو جاتا ہے، جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ کل ہم کہہ رہے تھے کہ جنرل ریٹائرڈ ہوتے ہیں تو آپ کہہ رہے تھے کہ نہیں ہوتے، پھر آج آپ کہہ رہے ہیں کہ جنرل ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔

پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو اپ ڈیٹ کرے تو نئے رولز بنیں گے، عدالت:

دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ابہام ہے، ساتھ ہی جسٹس منصور نے کہا کہ پارلیمنٹ کو اس ابہام کو دور کرنا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ سے بہتر کوئی فورم نہیں جو سسٹم ٹھیک کر سکے، جس پر چیف جسٹس نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ آرمی ایکٹ کو اپ ڈیٹ کرے تو نئے رولز بنیں گے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کابینہ کے سامنے رکھ کر ضروری تبدیلیاں کریں گے، جس پر جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ یہ بھی طے کر لیا جائے کہ آئندہ توسیع ہو گی یا نئی تعیناتی۔ عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں 18 مختلف غلطیاں مجھے نظر آتی ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ غلطیوں کے باوجود آئین ہمیں بہت محترم ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ حکومت پہلی بار آئین پر واپس آئی ہے، جب کوئی کام آئین کے مطابق ہو جائے تو ہمارے ہاتھ بندھ جاتے ہیں، تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالت کا کندھا استعمال نہ کیا جائے ورنہ آئندہ کے لیے بھی سپریم کورٹ کا نام استعمال ہو گا۔

عدالت نے توسیع کر دی تو یہ قانونی مثال بن جائے گی، چیف جسٹس:

بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 243 میں 3 سال تعیناتی کا ذکر نہیں، 3 سال کی تعیناتی کی مثال ہو گی لیکن یہ قانون نہیں، عدالت نے توسیع کر دی تو یہ قانونی مثال بن جائے گی، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جہاں مدت کا ذکر نہ ہو وہاں حالات کے مطابق مدت مقرر ہوتی ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے تعیناتی کے وقت حکومت نے آرٹیکل 243 میں پڑھتے ہوئے اس میں اضافہ کر دیا، آرمی چیف کو توسیع دینا آئینی روایت نہیں، گزشتہ 3 آرمی چیف میں سے ایک کو توسیع ملی دوسرے کو نہیں، اب تیسرے آرمی چیف کو توسیع ملنے جا رہی ہے۔  عدالت کے چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق تعیناتی کرنی ہے تو مدت نکال دیں، ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کم از کم آرٹیکل 243 پر تو مکمل عمل کریں، نہ تنخواہ کا تعین کیا گیا نہ ہی مراعات کا ذکر ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ غیر معینہ مدت کے لیے بھی تعیناتی نہیں ہو سکتی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے بھی جنرل باجوہ کو غیر معینہ مدت کے لیے تعینات کیا گیا۔

قانون سازی کیلئے 3 ماہ کا وقت چاہیے، اٹارنی جنرل:

اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ رولز میں ترمیم کرتے رہے ہیں، پھر ہم نے ایڈوائزری کردار لکھ دیا، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ابھی جا کر قانون بنا کر آئیں، جوقانون 72 سال میں نہیں بن سکتا وہ اتنی جلدی میں بھی نہیں بن سکتا، جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اس وقت میرے پاس کوئی بھی قانون نہیں سوائے ایک دستاویزات کے، ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس معاملے پر کوئی قانون بنائیں۔ اٹارنی جنرل کی بات پر عدالت نے پوچھا کہ قانون بنانے میں کتنا وقت لیں گے، جس پر انور منصور نے جواب دیا کہ ہمیں 3 ماہ کا وقت چاہیے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سے 72 سال میں قانون نہیں بنا اتنی جلدی کیسے بنائیں گے۔

جس پر عدالت نے جنرل قمر باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے مشروط رضامندی ظاہر کرتے ہوئے کہا، آپ نے کہا ہے کہ قانونی سازی کے لیے 3 ماہ چاہیے، تو ہم 3 ماہ کے لیے اس کی توسیع کر دیتے ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنہوں نے ملک کی خدمت کی ان کا بہت احترام ہے لیکن ہمیں آئین اور قانون کا سب سے زیادہ احترام ہے۔ سماعت کے دوران فروغ نسیم روسٹرم پر آئے تو انور منصور نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ فروغ نسیم کا بھی مسئلہ حل ہو گیا ہے،  جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت کی مداخلت سے مسئلے حل ہو جائیں گے، جب تک عدالت میں مسئلہ نہیں آئے گا تو کیسے حل ہو گا، ہمارے پاس ریاض راہی آئے ہم نے جانے نہیں دیا، لوگ کہتے ہیں عدالت خود نوٹس لے، ہمیں جانا نہ پڑے، عدالت کے دروازے کھلے ہیں کوئی آئے تو سہی۔

جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کی دستاویز پیش:

سماعت کے دوران جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی کی توسیع کی دستاویزات عدالت میں پیش کی گئیں۔اس کو چیف جسٹس نے دیکھا اور کہا کہ کہیں نہیں لکھا جنرل (ر) پرویز کیانی کو توسیع کس نے دی تھی، جس قانون کے تحت توسیع دی گئی اس کا بھی حوالہ دیں، اتنے اہم عہدے کے لیے تو ابہام ہونا ہی نہیں چاہیے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جنرل راحیل کو تو پنشن مل رہی ہے، رولز میں تو جنرل کی پنشن کا ذکر ہی نہیں، ملک پر حکومت کرنے والے ہمیں عزیز ہیں لیکن آئین اور قانون ہمیں سب سے بالاتر ہے۔

عدالت کی حکومت کو بیان حلفی جمع کروانے کی ہدایت:

سماعت کے دوران فروغ نسیم نے کہا کہ ہم تحریری طور لکھ کر دیتے ہیں کہ عدالت جو کہہ رہی ہے اس پر عمل کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کا ذکر سمری میں سے حذف کریں گے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ سمری سے عدالت کا نام اور 3 سال کی مدت نکال دیں گے جبکہ تنخواہ اور مراعات سے متعلق چیزیں سمری میں واضح کریں۔ ساتھ ہی عدالت نے کہا کہ ایک بیان حلفی جمع کروائیں کہ 6 ماہ میں آئین کے آرٹیکل 243 میں قانون سازی کریں گے اور آرمی چیف کی مدت، تعیناتی، توسیع، الائونس و دیگر چیزیں واضح کی جائیں گی کیونکہ یہ آرٹیکل خاموش ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام چیزیں ریکارڈ کا حصہ ہو، قانون درست ہونا چاہیے، یہ یہ وقت کا ضیاع ہے یہ کام حکومت کا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم جن قانونی پیچیدگیوں کی طرف نشاندہی کر رہے ہیں، اس سے آپ کو تکلیف تو ہو گی لیکن اس کو شرمندگی نہ سمجھا جائے۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ آرمی چیف ملک کے دفاع پر نظر رکھیں یا ان سمریوں کو دیکھیں، آرمی چیف کے لیے ملک کے دفاع کی بجائے سمریوں پر نظر رکھنا باعث شرمندگی ہے، ہم حتمی رائے قائم نہیں کر رہے، اس حوالے سے مختصر فیصلہ دیں گے اور تفصیلی فیصلے میں طریقہ کار واضح کریں گے، اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو تباہی ہو سکتی ہے۔

بعد ازاں عدالت نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اگر دوپہر تک درستی ہو جائے تو زیادہ بہتر ہو گا، آج دوپہر تک غور کر کے فیصلہ سنائیں گے، ایک بجے تک درستی کر کے آ جائیں۔ جس کے بعد مذکورہ کیس کی سماعت میں ایک بجے تک وقفہ کر دیا گیا۔ وقفے کے بعد سماعت کا آغاز تھوڑا تاخیر سے ہوا، جس کے بعد عدالت نے نئی دستاویز کا جائزہ لیا اور مختصر فیصلہ سنایا، تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ 29 نومبر 2016 ء کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت مکمل ہونے کے بعد ان کی جگہ پاک فوج کی قیادت سنبھالی تھی، انہیں اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے فوج کا سربراہ تعینات کیا تھا۔

No comments.

Leave a Reply