نیٹو کی 70ویں سالگرہ، نیٹو کیا ہے، کب بنا اور اب اس اتحاد کا مستبقل کیا ہے؟

نیٹو کی سترویں سالگرہ پر شاہراہ کو سجایا گیا ہے‘ ٹرمپ اور اسٹولٹن برگ ملاقات کررہے ہیں

نیٹو کی سترویں سالگرہ پر شاہراہ کو سجایا گیا ہے‘ ٹرمپ اور اسٹولٹن برگ ملاقات کررہے ہیں

لندن ۔۔۔ نیوز ٹائم

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے قیام کو 70 برس مکمل ہونے پر برطانوی دارالحکومت لندن میں رکن ممالک کا اجلاس جاری ہے۔ نیٹو کے سربراہ اجلاس کا آغاز منگل کے روز برطانوی شاہی محل Buckingham Palace میں ایک تقریب سے ہوا،  جس کے بعد 10 Downing Street پر بھی سیشن منعقد کیا گیا۔ اس موقع پر لندن کی شاہراہوں کو رکن ممالک کے پرچموں سے سجایا گیا۔ دیگر اجلاس اور رہنمائوں کی مصروفیات کا آغاز آج بدھ کے روز سے ہو گا۔ لندن کے شمال میں واقع Golf Resort میں 3 گھنٹوں پر محیط اجلاس میں تقریباً 50 اہم فیصلے کیے جائیں گے۔ اس اجلاس کے موقع پر کئی شریک رہنمائوں کی انفرادی ملاقتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس دوران نیٹو کے سیکرٹری جنرل  Jens Stoltenberg اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملاقات کی۔ اس دوران ٹرمپ نے فرانسیسی صدر Emmanuel Macron کے نیٹو کی دماغی موت سے متعلق بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے گستاخانہ قرار دیا۔  جبکہ انہوں نے ترکی پر تنقید مسترد کرتے ہوئے اسے نیٹو کا ایک اچھا رکن ملک قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔  کافی وقت تک ہم شامی سرحد پر رکے رہے، تاہم اب ہم ان سرحدوں سے اپنا انخلا کر چکے ہیں۔ دہشت گرد تنظیم داعش (ISIS) کے سرغنہ بغدادی کے خلاف کارروائی میں ترکی نے بڑی مدد کی ہے۔ اس سے بہتر امداد ممکن نہیں تھی اور نہ ہی اس سے زیادہ کچھ کیا جا سکتا تھا۔

نیٹو کی 70ویں سالگرہ کے موقع پر لندن میں ہونے والے اجلاس پر گرمجوشی شائد اتحاد میں شامل افراد کی امیدوں سے کم ہو لیکن امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہ تنظیم کی آخری سالگرہ نہیں ہو گی۔ نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کی تشکیل 1949ء میں سرد جنگ کے ابتدائی مراحل میں اپنے رکن ممالک کے مشترکہ دفاع کے لیے بطور سیاسی اور فوجی اتحاد کے طور پر کی گئی تھی۔ امریکہ کے زیر قیادت اس اتحاد کے 29 ممبران کا اجلاس منگل اور بدھ کو لندن میں ہو رہا ہے،  اور اگرچہ اس کے حامی اس کو تاریخ کا سب سے کامیاب فوجی اتحاد قرار دیتے ہیں، لیکن اس کے مستقبل پر سوالات ہو رہے ہیں۔ 70 برس بعد بھی بنیادی طور پر مختلف ترجیحات کے ساتھ بدلی ہوئی دنیا میں کیا اب بھی اس اتحاد کی ضرورت ہے؟ حالیہ عرصے میں نیٹو کے رکن ممالک کے مابین ہم آہنگی کم ہی دیکھنے میں آئی ہے۔ اس تنظیم یا دیگر رکن ممالک پر امریکہ، فرانس اور ترکی کی جانب سے تنقید کی گئی ہے۔ نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) اتحاد امریکہ اور کینیڈا کے علاوہ 10 یورپی ممالک کی جانب سے دوسری جنگ عظیم کے نتیجے میں بنایا گیا تھا۔ اس اتحاد کا بنیادی مقصد اس وقت کے سوویت یونین سے نمٹنا تھا۔ جنگ کے ایک فاتح کے طور پر ابھرنے کے بعد، سوویت فوج کی ایک بڑی تعداد مشرقی یورپ میں موجود رہی تھی اور ماسکو نے مشرقی جرمنی سمیت کئی ممالک پر کافی اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا۔

جرمنی کے دارالحکومت برلن پر دوسری جنگ عظیم کی فاتح افواج نے قبضہ کر لیا تھا اور 1948ء کے وسط میں سوویت رہنما Joseph Stalin نے مغربی برلن کی ناکہ بندی شروع کر دی تھی،  جو اس وقت مشترکہ طور پر امریکی، برطانوی اور فرانسیسی کنٹرول میں تھا۔ شہر میں محاذ آرائی سے کامیابی سے گریز کیا گیا لیکن اس بحران نے سوویت طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد کی تشکیل میں تیزی پیدا کر دی تھی۔ اور 1949ء میں امریکہ اور 11 دیگر ممالک (برطانیہ، فرانس، اٹلی، کینیڈا، ناروے، بیلجیئم، ڈنمارک، نیدرلینڈز، پرتگال، آئس لینڈ اور لکسمبرگ) نے ایک سیاسی اور فوجی اتحاد تشکیل دیا۔ 1952ء میں اس تنظیم میں یونان اور ترکی کو شامل کیا گیا جبکہ 1955ء میں مغربی جرمنی بھی اس اتحاد میں شامل ہوا۔ 1999 کے بعد سے اس نے سابقہ مشرقی بلاک کے ممالک کا بھی خیر مقدم کیا اور اس کے ارکان کی مجموعی تعداد 29 ہو گئی۔  Montenegro 2017 ء میں اس کا حصہ بننے والا آخری ملک تھا۔ نیٹو کے قیام کا بنیادی مقصد شمالی اٹلانٹک کے علاقے میں استحکام اور بہبود کو فروغ دے کر اپنے رکن ممالک کی آزادی، مشترکہ ورثے اور تہذیب کی حفاظت کرنا ہے۔ نیٹو معاہدہ یہ ثابت کرتا ہے کہ نیٹو کے ایک رکن ملک کے خلاف مسلح حملہ ان سب کے خلاف حملہ سمجھا جائے گا، اور یہ کہ وہ ایک دوسرے کی مدد کریں گے۔ عملی طور پر اتحاد اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ یورپی رکن ممالک کی سلامتی شمالی امریکہ کے رکن ممالک کی سلامتی سے جدا نہیں ہے۔ اس تنظیم نے سوویت یونین اور کمیونزم کو اس سلامتی کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر دیکھا تھا۔ لیکن اس کی تخلیق کے بعد سے نیٹو کی سرحدیں ماسکو کے 1000 کلومیٹر قریب ہو گئی ہیں،  اور اب یہ تنظیم مشرقی یورپ میں 1989ء کی انقلابات اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سابق سوویت یونین میں شامل ممالک کو اپنا رکن گنتی ہے۔

اب اگر سویت یونین نہیں ہے تو نیٹو کا وجود کیوں ہے؟ نیٹو کمانڈ کے تحت آج بھی افغانستان میں تقریبا 17000  فوجی افغان سکیورٹی فورسز کی تربیت، رہنمائی اور مدد کے مشن کے طور پر موجود ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے اور سوویت یونین کے ٹوٹنے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مغرب نے ماسکو کی فکر کرنا چھوڑ دی ہے۔ 2003 ء میں نیٹو کے ایک اعلی عہدیدار، Jamie Patrick Shea نے اپنی مشہور تقریر میں کہا تھا کہ کسی کو اس بات پر یقین نہیں تھا کہ کمیونزم کے اچانک ختم ہونے سے دنیا ایک جنت بن جائے گی،  ایک ایسے سنہری دور کی تشکیل جس میں اتحادی مسلح افواج کے بغیر زندہ رہ سکیں گے، یا دفاع کے بغیر زندگی بسر کر سکیں گے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ روس عسکری طور پر طاقتور رہا اور Yugoslavia کے خاتمے سے 1990ء کی دہائی میں ہی جنگ یورپ میں واپس آ گئی۔ اس کے بعد کے تنازعات میں دیکھا گیا کہ نیٹو نے اپنا کردار ایک مداخلت پسند تنظیم میں بدل لیا: فوجی کارروائیوں میں بوسنیا اور کوسوو میں سربیا کی افواج کے خلاف فضائی مہم کے علاوہ بحری ناکہ بندی اور امن فوج بھی شامل تھیں۔ 2001 ء میں نیٹو نے پہلی بار یورپ کے باہر اپنی کاروائیاں کیں: اس نے 11 ستمبر کے حملوں کے بعد افغانستان بھیجے گئے اقوام متحدہ کی جانب سے منظور شدہ اتحادی فوج کی سٹریٹجک کمانڈ سنبھالی۔ 2016 ء میں جب وہ ابھی صدارتی امیدوار تھے، انھوں نے نیٹو کو فرسودہ قرار دیا اور کہا تھا کہ اگر وہ تنظیم ٹوٹ جائے تو انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ ٹرمپ نے یہ اشارہ بھی دیا تھا کہ امریکہ اتحادی ممبروں پر حملے کی صورت میں ان کا دفاع کرنے کے عزم کی پابندی کرنے یہاں تک کہ تنظیم کو بھی چھوڑ سکتا ہے۔ انھوں نے یہ شکایت بھی کی کہ واشنگٹن نیٹو کے دیگر رکن ممالک کے مقابلے میں دفاع پر زیادہ رقم خرچ کر رہا ہے۔ انھوں نے ستمبر 2018 ء میں ٹویٹ کیا تھا کہ امریکہ کسی دوسرے ملک کے مقابلے میں نیٹو پر بہت زیادہ خرچ کر رہا ہے۔  یہ مناسب نہیں ہے اور نہ ہی یہ قابل قبول ہے۔ اور شاید ان کا نکتہ اعتراض درست ہے کیونکہ امریکہ نیٹو کے تمام رکن ممالک 2018  (کے اعداد و شمار کے مطابق) کے دفاع پر کل اخراجات کا تقریباً 70 فیصد ادا کرتا ہے  اور اگرچہ 2014 ء میں تمام نیٹو ممبران نے 2024 ء تک اپنے دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کے 2 فیصد تک بڑھانے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ تاہم ابھی تک چند رکن ممالک ہی ایسا کر سکے ہیں۔

نیٹو کا اجلاس برطانیہ کے عام انتخابات سے ایک ہفتہ قبل لندن میں ہو رہا ہے، جس کے نتائج کے بارے میں بہت بے یقینی ہے۔ برطانیہ نے ابھی یورپی یونین سے علیحدگی کی شرائط کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ایک تلخ بریگزٹ نیٹو اتحاد میں اختلاف رائے پیدا کر سکتا ہے جس میں فی الحال یورپی یونین کے 28 ممالک میں سے 22 ممالک موجود ہیں۔ فی الحال نیٹو ممالک میں صرف امریکہ ہے جو دفاع پر برطانیہ سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔ نیٹو کے سابق ڈپٹی سیکرٹری جنرل، Alexander Vershbow نے رواں سال کے اوائل میں این پی آر ریڈیو کو بتایا تھا کہ جب تک ہم ایک جارحانہ روس کا سامنا کر رہے ہیں ہمیں اجتماعی دفاع اور عدم استحکام کے اپنے بنیادی مشن کے لیے نیٹو کی ضرورت ہو گی۔ تو مجھے لگتا ہے کہ (نیٹو میں) اس میں کم سے کم کئی دہائیاں ہیں اور شائد مزید 70 برس ہوں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ٹرمپ کی تنقید کے باوجود امریکی کانگریس نے گذشتہ جنوری میں ملک کو نیٹو سے نکلنے سے روکنے کے لیے قانون سازی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔ ڈیموکریٹ اور ریپبلیکن دونوں پارٹیوں نے اس کی زبردست حمایت کی تھی اور اس کے حق میں 357 ووٹ تھے اور اس کے مخالف صرف 22 ووٹ ڈالے گئے تھے۔ نیٹو کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر ہونے والے اجلاس پر گرمجوشی شائد اتحاد میں شامل افراد کی امیدوں سے کم ہو لیکن امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ یہ تنظیم کی آخری سالگرہ نہیں ہو گی۔

No comments.

Leave a Reply