غزہ میں بندرگاہیں اور مقدس مقامات کا حق چھین کرلیں گے: خالد مشعل

اسلامی تحریک مزاحمت "حماس" کے سیاسی شعبے کے سربراہ Khaled Meshaal

اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کے سیاسی شعبے کے سربراہ Khaled Meshaal

دوحہ ۔۔۔ نیوز ٹائم

اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کے سیاسی شعبے کے سربراہ Khaled Meshaal نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں عوام کا جشن جنگ بندی کے لیے نہیں بلکہ فلسطینی قوم کی جرات اور بہادری کے نتیجے میں صہیونی دشمن کی شکست اور فلسطینیوں کی فتح کا جشن ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں اسرائیل کے عزائم کا قبرستان بنا ہے اور بے گناہ کے قتل عام کی سزا جلد صہونیوں کو ملنے والی ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق قطر کے صدر مقام دوحہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے Khaled Meshaal کا کہنا تھا کہ غزہ کی جنگ نے اسرائیلی خوف کی پالیسی کو بری طرح ناکام ثابت کیا ہے۔ اس جنگ نے صہیونی فوج پر وہ کاری ضرب لگائی ہے جس کا احساس اب اسے سالوںتک یاد  رہے گا۔ فلسطینی تحریک مزاحمت نے دشمن کے خلاف رعب اور خوف کا توازن برقرار رکھا اور یہ ثابت کیا ہے کہ فلسطینی صہیونی فوج کے لیے ترنوالہ ثابت نہیں ہوسکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں حماس رہنما نے کہا کہ صہیونی لیڈرشپ اس وقت جعلی فتح کی تلاش میں ہے لیکن حقیقی معنوں میں یہ جنگ فلسطینیوں کی فتح کی سب سے بڑی دلیل ہے۔”کھایا ہوا چارا” کے نام سے صہیونی دشمن کے خلاف فلسطینیوں کا معرکہ آزادی کے لیے اہم ترین سنگ میل ثابت ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت قومی سطح پر اور پورے عالم اسلام میں فلسطینیوں کی صہیونی قہر کے سامنے جرات و بہادری کا مظاہرہ کرنے اور پوری ہمت کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرنے پر داد تحسین مل رہی ہے۔ فلسطینی مجاھدین حقیقی معنوں میں وطن کی آزادی کی فوج ثابت ہوئے ہیں۔ خالد مشعل کا کہنا تھا کہ غزہ جنگ نے ہمیں زیادہ محفوظ بنایا اور اپنی منزل کے اور قریب کردیا ہے۔ اب وقت وہ دور نہیں جب بیت المقدس، مسجد اقصی اور فلسطین میں موجود تمام مقدسات صہیونیوں کے ظالمانہ چنگل آزاد ہوں گے۔ ایک دوسرے سوال کے جواب میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ نے کہا کہ ہم اسرائیل کو ہلکا نہیں سمجھتے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کئی عالمی ٹھیکیدار صہیونی ریاست کی پشت پر کھڑے ہیں۔ وہ اسے عسکری شعبے میں امداد  فراہم کرتے ہیں لیکن  ہمارے ارادے اور مقاصد قلیل نہیں ہیں۔  ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ فلسطینی مجاھدین نے دشمن کو ہر میدان میں شکست فاش سے دوچار کیا ہے۔ مجاھدین کی یہ بڑی کامیابی ملی کہ انہوں نے جنگ کے تمام ایام میں اسرائیل میں بھی نظام زندگی مفلوج کرکے چھوڑا تھا۔ اسرائیلی فوج مسلسل فلسطینی مزاحمت کاروں کے ٹھکانوں اور اہم فلسطینی کمانڈروں کی تلاش کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھی تاکہ بمباری کے ذریعے انہیں نشانہ بنایا جا سکے۔  جنگ کے نتیجے میں فلسطینی قوم کو مسلح مزاحمت کی کامیابی کا یقین اور دشمن کو فلسطینیوں کی ہمت اور جرات کا اندازہ ہوا۔ اس وقت پوری دنیا کے یہودیوں کے لیے اسرائیلی ریاست ایک بوجھ بن کر رہ گئی ہے۔ خود اسرائیلی اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرنے کی بھی عالمی سطح پر ناکام کوشش کررہے ہیں لیکن انسانی حقوق کا احترام کرنے والے ادارے اور عالمی قوتیں جانتیں ہیں کہ مظلوم اسرائیل ہے یا فلسطینی ہیں۔

No comments.

Leave a Reply