ٹرمپ اِن ٹربل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

نیوز ٹائم

ماڈرن امریکہ کی تاریخ زیادہ پرانی نہیں ہے۔ دنیا کے کسی ملک نے اتنے قلیل عرصے میں اس قدر ترقی نہیں کی۔ عسکری اعتبار سے دیکھیں تو یہ دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے۔ واحد سوپر پاور۔ کچھ عرصہ تک روس نے اس کا ہم پلہ ہونے کی کوشش کی لیکن جلد ہی اس کے قدم ڈگمگا گئے۔ (CARABIAN CRISIS) اس کی دکھتی رگ ثابت ہوا۔ late Kurdshof کی گیدڑ دھمکیاں کسی کام نہ آئیں اور وہ بالآخر سمندری جھاگ کی طرح بیٹھ گیا۔ وہ جہاز جو ایٹمی میزائل لے کر کیوبا جا رہے تھے انہیں واپسی کا حکم دے دیا گیا۔ اس وقت John F. Kennedy امریکی صدر تھا۔ کسی فوری حملے سے بچنے کے لیے اس کے 400 جہاز ایٹمی میزائل لے کر ہر وقت ہوا میں رہتے ہیں۔ ان کے ٹارگٹ مقرر ہیں۔ الاسکا کے بیرنگ اسٹریٹ کے قریب انہیں واپسی کا حکم دیا جاتا ہے۔ یہ عمل جاری ہے۔ Bearings Street 30 میل کی وہ منجمد سمندری پٹی ہے جو روس کو امریکہ سے جدا کرتی ہے۔

جیسا کہ پہلے بھی کہیں لکھا جا چکا ہے امریکہ کی سیاست میں تین قسم کے صدارتی امیدوار ہوتے ہیں۔ (i) منطقی امیدوار فیورٹ آدمی اور ڈارک ہارسز ایک حاضر سروس صدر جب دوسری بار الیکشن لڑتا ہے تو اسے منطقی امیدوار کہا جاتا ہے۔ فیورٹ آدمی وہ مشہور لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے زندگی کے کسی شعبے میں کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ہوتے ہیں۔ جیسے صدر George washington یا General Dwight D. Eisenhower ۔ کالے گھوڑے وہ ہوتے ہیں جو گوشہ گمنامی سے نکل کر ایک دم بامِ عروج پر پہنچ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں Jimmy Carter کی مثال دی جا سکتی ہے۔ جب سے ٹرمپ صدر بنا ہے بڑی سہولت کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ چوتھی قسم وائٹ ہارسز کی ہے۔ یعنی جو کسی نہ کسی وجہ سے مشہور تو ہوں لیکن ان کے سیاست میں آنے اور آ کر چمکنے کا تصور بھی نہ کیا جا سکتا ہو۔ ٹرمپ کا شمار امریکہ کے امیر آدمیوں میں ہوتا ہے۔ یہ اپنے جوا خانوں اور پلازوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ ڈھلتی ہوئی عمر کے باوصف اسے امریکہ کا پلے بوائے سمجھا جاتا تھا۔ رنگین مزاج تو صدر John F. Kennedy اور بل کلنٹن بھی تھے لیکن اس کے طوفانی لو آفیئرز کے مقابلے میں ان کے معاشقوں کو بادِ لطیف ہی کہا جا سکتا ہے  John F. Kennedy کا معاشقہ اپنے وقت کی شوخ و شنگ تیز طرار اور سیکس سمبل فلمی اداکارہ Marilyn Monroe کے ساتھ چل رہا تھا۔

وہ معاشقہ اس کی مختصر صدارت کے دوران طشت ازبام نہ ہو سکا۔ اس کی بڑی وجہ تو یہ تھی کہ اس وقت تک میڈیا کی سونگھنے کی صلاحیتیں اس قدر نہ بڑھی تھیں، جتنی اب ہیں۔ TABLOID کے صحافی تو چارپائی کے نیچے گھس جانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ انہیں (BUZZING INSECTS) کہا جاتا ہے۔ لیڈی ڈیانا کی موت بھی ان کے کارکن ہی ہوئی جب وہ Dudi’s “Alphabet” کے ساتھ پیرس کے Ritz Hotel سے کھانا کھا کر نکلی تو ان کو اپنے اسلحہ (کیمروں) کے ساتھ تیار کھڑے پایا۔ تعاقب شروع ہوا تو تیز رفتار کار ایک انڈر پاس کی دیوار سے ٹکرا گئی۔ اس میں کچھ حصہ خفیہ ایجنسیوں نے بھی ڈالا۔ مبینہ طور پر انہوں نے پہلے تو ڈرائیور کو تیز شراب پلا کر ٹن کر دیا اور پھر اس کی آنکھوں میں لیزر لائٹ پھینکی خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا۔ کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ Kennedy کے بچنے کی بنیادی وجہ یہ تھی کہتے ہیں بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی۔ پکڑا گیا تو وہ بھی اپنی زوجہ Jackie Kennedy کے ہاتھوں۔ خوش قسمتی سے وہ اس قدر غصیلی نہ تھی جتنی ٹرمپ کی سابقہ حریف ہیلری کلنٹن نکلی۔ وگرنہ ایش ٹرے پھینک کر اس کے ماتھے کو بھی گلنار کیا جا سکتا تھا۔ کلنٹن ٹھیک طرح سے اڑنے بھی نہ پایا تھا کہ گرفتار ہو گیا۔ گناہِ بے لذت! Monica Lewinsky بھی سوچتی ہو گی کہ یہ کیسا صدر ہے جو آگ تاپنا چاہتا ہے مگر اس کی حرارت سے بھی ڈرتا ہے۔

ٹرمپ نے جب صدارتی الیکشن لڑنے کا عندیہ دیا تو سب بڑے حیران ہوئے اس کی شہرت ایک تیز طرار، برہنہ گفتار، سیماب صفت، عیاش اوباش اور (SNOB) کی سی تھی۔ اپنے مخالفین کو یہ کرپٹ، بے ایمان کے القابات سے نوازتا۔ اس کے مقابلے میں ایک ایسی عورت تھی جو خاتون اول رہ چکی تھی۔ سابق وزیر خارجہ نیو یارک کی سینیٹر، کئی کتابوں کی مصنف، اعلی درجہ کی مقرر تھی۔ سب رائے عامہ معلوم کرنے والے اداروں کا حتمی تجزیہ تھا کہ ٹرمپ کے جیتنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اخبارات اور ٹی وی ٹاک شوز میں اسی قسم کے تبصرے ہوئے جو محمد علی کلے کی Sony Letson کے ساتھ پہلی فائٹ پر ہوئے تھے۔ لیکن جس طرح محمد علی نے Sony Letson کو ناک آئوٹ کیا تھا اسی طرح ٹرمپ نے ہلیری کو بھی چاروں شانے چت کر دیا۔ تینوں مباحثے، جیتنے اپنی مقبولیت اور عمومی تجزیوں کے باوصف وہ ہار گئی۔ اس کی شکست کی تین بنیادی وجوہ تھیں(i ) اس کا عورت ہونا سدِ راہ بن گیا۔ آج تک کوئی عورت صدارتی انتخاب نہیں جیت سکی۔ لوگ ہنوز زمینی طور پر صنفِ نازک کو صدر قبول کرنے پر تیار نہیں (ii) ٹرمپ نے امریکہ اور میکسیکو کے درمیان دیوار کھڑی کرنے کا جو وعدہ کیا اس کو بڑی پذیرائی ملی گو یہ دونوں ہمسایہ ملک ہیں مگر معاشی اعتبار سے ان کے درمیان ایک دیوار گریہ کھڑی ہے۔ ہر امریکی شہری کو زندگی کی سب بنیادی سہولتیں میسر ہیں جبکہ میکسیکو میں اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ وہ لوگ غیر قانونی طور پر امریکہ آ کر نصف تنخواہ پر کام کرتے ہیں۔ جرائم پیشہ ہیں۔ اس طرح امریکیوں کا حق مارتے ہیں۔ دیوار بننے کی صورت میں ان کا غیر قانونی داخلہ کافی حد تک کم ہو سکتا ہے۔ (iii) تیسری وجہ اکانومی ہے ٹرمپ نے یہ بات رائے دہندگان کو ذہن نشین کرا دی کہ وہ بے روزگاری ختم کر د ے گا۔ اپنی چند حماقتوں کے باوجود اس نے کافی وعدے پورے کر دئیے ہیں۔ ہر ماہ لاکھوں نوکریاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ افراطِ زر کنٹرول میں ہے، سٹاک مارکیٹ اوپر جا رہی ہے اور امریکی کرنسی ڈالر اپنے اندر پہاڑوں کی سی صلاحیت رکھتا ہے۔

عراق اور شام سے امریکی فوجوں کو کافی حد تک واپس بلایا جا چکا ہے اور افغانستان کے طالبان کے ساتھ نہایت سنجیدہ گفت و شنید ہو رہی ہے۔ اپنی گیدڑ بھبھکیوں کے باوصف اسے پتہ ہے کہ شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ کیسے بات چیت کو آگے بڑھانا ہے۔ چین کے ساتھ جو تجارتی معاہدہ ہو رہا ہے اس میں بھی یہ کچھ نہ کچھ لے کر ہی ختم ہو گا۔ اس سے پہلے یکطرفہ ٹریفک چل رہی تھی۔ امریکہ واضح طور پر خسارے میں تھا۔ اب کچھ توازن پیدا ہو گا۔ نیٹو ممالک کو اس نے ذہن نشین کرا دیا ہے کہ دنیا میں فری لنچ نہیں ہوتے۔ دفاعی اخراجات میں حصہ بقدر حبثہ ہونا چاہئے۔ امریکہ ان کی مدد کر رہا ہے۔ مدد کا طلبگار نہیں ہے۔

ان معروضی حالات میں ٹرمپ کا 2020ء کا الیکشن جیتنا ایک Walkover سمجھا جا رہا تھا کہ یہ ایک بنیادی غلطی کر بیٹھا۔ اسے علم تھا کہ ڈیموکریٹس میں جو بائیڈن (سابقہ نائب صدر) ایک ایسا امیدوار ہے جو اس کا کسی حد تک مقابلہ کر سکتا ہے۔ چنانچہ اس کو بدنام کرنے کا ٹرمپ نے ایک نادر طریقہ سوچا۔ بائیڈن کا بیٹا یوکرائن میں بزنس کرتا تھا۔ امریکہ، یوکرائن کو روس کے خلاف دفاعی امداد دیتا ہے۔  اس نے وہ رقم روک کر یوکرائن کے صدر کو مجبور کیا کہ وہ جو بائیڈن کے بیٹے کے خلاف کرپشن کی انکوائری شروع کرے تاکہ الیکشن کمشن میں کہا جا سکے باپ، بیٹا کرپٹ ہیں۔

الیکشن جیتنے کی غرض سے ایسا کرنا امریکی قانون میں جرم ہے۔ ویسے بھی یہ ایک غیر اخلاقی فعل ہے۔ اس کی بھنک ایک مخبر کے ہاتھوں کانگریس کے کان میں پڑ گئی۔ نتیجتاً سپیکر Nancy Plossi نے انکوائری شروع کر دی۔ اب تک جتنے گواہ آئے ہیں انہوں نے ٹرمپ کے خلاف شہادت دی ہے۔ قرائن سے لگتا ہے کہ کانگریس اس کے Impeachment کیلئے اکثریت سے ووٹ دے دے گی۔ اس کیلئے سادہ اکثریت درکار ہو گی۔ اس کے بعد مقدمہ امریکی سینٹ میں جائے گا۔ وہاں اگر دوتہائی سینیٹر اس کے خلاف ووٹ دیتے ہیں تو اس کو صدارت سے دستبردار ہونا پڑے گا۔ اس طرح اگلی ٹرم ایک خواب بن کر رہ جائے گی۔ کیا ایسا ہو سکے گا؟ اس سے پہلے حالیہ دور میں Nixon Ampich ہوا۔ اس نے سینٹ کے ووٹ سے پہلے استعفی دے دیا۔ اس طرح کارروائی غیر موثر ہو گئی۔ کلنٹن کے وقت مطلوبہ اکثریت حاصل نہ ہو سکی اور وہ Impeachment سے بچ گیا۔ اس دفہ بھی ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ دونوں پارٹیوں میں سخت کشیدگی اور تنائو ہے۔ کانگریس میں ڈیموکریٹس کی اکثریت ہے جبکہ سینٹ میں ری پبلکنز کو غلبہ حاصل ہے۔ وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ ان کا صدر ہٹ جائے اور داغ پارٹی کو لگ جائے۔ اگلے الیکشن میں ٹرمپ کی شہرت کو سخت دھچکا لگے گا۔ وہ Back Foot پر کھیلے گا۔ مخالف فریق اس کی غیر قانونی حرکتوں اور ناجوازیوں کو خوب اچھالے گا۔  اس طرح ایک واضح فتح شکوک و شبہات کے بادلوں میں گھر جائے گی۔ معروضی حالات میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

No comments.

Leave a Reply