ونیزویلا میں امریکی شکست

تیس سال ہونے کو آئے امریکی سامراج ونیزویلا پر حملہ آور ہے اور اس پورے دور میں ہر مرحلے پر ذلت آمیز شکست کھاتا رہا ہے

تیس سال ہونے کو آئے امریکی سامراج ونیزویلا پر حملہ آور ہے اور اس پورے دور میں ہر مرحلے پر ذلت آمیز شکست کھاتا رہا ہے

نیوز ٹائم

تیس سال ہونے کو آئے امریکی سامراج ونیزویلا پر حملہ آور ہے اور اس پورے دور میں ہر مرحلے پر ذلت آمیز شکست کھاتا رہا ہے۔ ونیزویلا لاطینی امریکا کا سب سے کامیاب سرمایہ دارانہ انقلاب ثابت ہوا ہے جس نے عالمی سرمایہ دارانہ سامراجی بے بسی کو واضح کر دیا ہے۔ امریکی حملہ: ویسے تو امریکی تخریب کاری  Hugo Chávez کی  میں پہلی بغاوت کے وقت سے شروع ہو گئی تھی لیکن  امریکی ایما پر کی گئی ناکام بغاوت کے بعد کچھ ماند پڑ گئی۔ اوباما نے اس مہم کو پھر سے منظم کرنے کی داغ بیل 2012ء میں  Hugo Chávez کی موت کے بعد ڈالی اور  امریکی جارحیت اپنے نکتہ عروج کو پہنچ گئی۔ آج امریکا، ونیزویلا کے بین الاقوامی اثاثوں پر قبضہ جما چکا ہے۔ اس نے ونیزویلا کے تیل کی غیر ملکی ترسیل پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ونیزویلا کے سونے کے ذخائر کو برطانوی بینکوں نے منجمد کر دیا ہے۔ اوباما نے پابندیوں (sanction) کی جو بھرمار ونیزویلا پہ کی تھی اس میں ہوشربا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یہ خوراک اور دوائیوں کی ترسیل پر بھی لاگو ہیں۔ امریکا نے ان پابندیوں کے ذریعے ونیزویلا کو ایک محصور ملک بنا دیا ہے۔ امریکا نے بڑے پیمانے پر ونیزویلا پر سائبر حملے کیے اور اس سال کے شروع میں کچھ دنوں سے ان کے نتیجہ میں ونیزویلا کا بجلی کا نظام معطل ہو گیا تھا۔ ان حملوں میں وہی جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے، جو اس نے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات کے خلاف استعمال کی تھی اس جنگ میں امریکا کو ناٹو اور ونیزویلا کے ہمسایہ ممالک برازیل، کولمبیا اور یوراگوائے کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔

امریکی دہشت گردی کے آلہ کار بڑے پیمانے پر ونیزویلا کے ریاستی نظام اور معاشرے میں سرایت کر گئے ہیں۔ ونیزویلا کی منتخب مقننہ میں صدر Nicolas Maduro کی جماعت کی اکثریت نہیں اس میں امریکی بھرے پڑے ہیں اور انہوں نے 10 مہینے قبل Nicolas Maduro کی حکومت کو برطرف کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ تاجروں اور صنعتکاروں کی ملک گیر تنظیم بھی سامراج کی حلیف اور انقلابی حکومت کی مخالف ہے۔ طالب علموں اور دانشوروں کا ایک بڑا حصہ امریکی چیلوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود وہاں انقلابیوں کی حکومت قائم ہے اور امریکا ہنوز ذلیل ہو رہا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انقلاب کے اوائل ہی سے انقلابی جماعت اور اس کے قائدین کو یہ احساس تھا کہ عوامی معاشرتی صف بندی انقلاب کے تحفظ اور پھیلائو کے لیے ناگزیر ہے۔ انقلابی جماعت کو عوامی زندگی کی روزمرہ کی زندگی کی ہر کشمکش کو انقلابی عمل میں سمو لینے کی ضرورت کا احساس تھا۔ انہوں نے جو ریاست تعمیر کی اس میں عوامی روز مرہ کی جدوجہدوں کو منظم کرنے کی اور مہمیز دینے کی گنجائش دستور میں ترمیم کے ذریعہ کی گئی۔ ریاستی قوت کا باقاعدہ منصوبے کے ذریعے حکومتی سطح سے معاشرے کے نچلے ترین حلقوں تک منتقل کرنے کا انتظام کیا گیا۔

ابتدا تک ملک بھر میں عوامی انقلابی محلہ جاتی تنظیموں کا ایک وسیع جال بچھا دیا گیا ہے ان محلہ جاتی انقلابی تنظیموں کو کمرشیل کونسل کہا جاتا ہے۔ شہروں میں ہر محلہ جاتی کونسل میں  سے  خاندان شامل کیے جاتے ہیں۔ یہ کمیٹیاں سیاسی بھی ہیں معاشی بھی اورثقافتی ادارہ بھی۔ ان کی کارفرمائی نے انقلابی عمل کو تقریبا ناقابل تسخیر بنا دیا ہے۔ ان کمیٹیوں کے ارکان اپنی جان پر کھیل کر سامراج کے خلاف انقلاب کے دفاع کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے اپریل  میں مطالبہ کیا کہ ان کمیٹیوں کو رسوائے زمانہ دہشت گردی کی فہرست میں شامل کیا جائے۔ ان کمیٹیوں کے تقریبا تین ملین افراد ہتھیار بند ہیں اور یہی ونیزویلا کی فوجی عوامی اتحاد کی ریڑھ کی ہڈی ہیں۔ اس میں ہمارے لیے سب سے پہلا سبق تو یہ ہے کہ آج کے دورمیں امریکا سامراج کا مقابلہ ممکن ہے۔ امریکا ایک بزدل، پست ہمت اور زوال پزیر قوت ہے۔ وہ صرف اپنے سے کمزور حریفوں پر حملہ آور ہوتا ہے اور وہ بھی ایسے حریف جو منتشر اور غیر منظم ہوں۔ آج تک نہ وینزویلا کے خلاف امریکا فوج کشی کر سکا نہ کیوبا کے خلاف، افغانستان سے ایک پٹے ہوئے کتے کی طرح راہ فرار تلاش کر رہا ہے۔ اس نے جو ایک ملین کے قریب فوجی اور ان کے معاونین مشرق وسطی کی جنگوں میں جھونک دیے ہیں وہ سب امریکا واپس جا کر ذہنی مریض بنے ہوئے ہیں اور ان کی وجہ سے امریکی معاشرے میں احساس ناکامی ایک وبا کی طرح پھیل رہا ہے۔

دور حاضر میں امریکا کے پاس سب سے بڑا ہتھیار اقتصادی پابندیاں ہیں، امریکا کے پاس یہ طاقت موجود ہے کہ وہ اپنے مخالف ممالک اور گروہوں کی بین الاقوامی تجارت اور ترسیل زر پر اپنی سامراجی تنظیموں بالخصوص FATF.IPO.WTO اور اقوام متحدہ کے ذریعے حد بندیاں نافذ کر دے  اور یہ حد بندیاں ملکی معیشت کو نقصان پہنچاتی ہیں لیکن یہ دنیا میں کہیں بھی انقلابی عمل کو ناکام نہ کر سکی نہ چین میں، نہ کیوبا میں، نہ ایران میں، نہ ونیزویلا میں، نہ شمالی کوریا میں۔

پاکستانی معیشت پر تو sanctions کا اثر نہایت محدود ہو گا جیسا کہ تجربہ سے ثابت ہے جب ہمیں نیوکلیئر دھماکے کی سزا دینے کے لیے پابندیاں نافذ کی گئی تھیں۔ اس سال ملکی پیدوار کی شرح نمو فیصد تھی، inflation نہ ہونے کے برابر تھا اور روپیہ کا بین الاقوامی نرخ (rate of exchange) مستحکم رہا۔ آج بھی بین الاقوامی تجارت کا حجم ملکی پیدوار میں 3 فیصد سے زیادہ نہیں۔ بین الاقوامی سرمایہ کاری مجموعی سرمایہ کاری کا  10فیصد بھی نہیں۔ سامراج سے حاصل شدہ بھیک کا 90 فیصد سامراج کی سودی اور اصل کی ادائیگیوں میں خرچ ہو جاتا ہے عملا پاکستان ایک خود کفیل معیشت ہے جس پر پابندیوں کا اثر لازما محدود رہے گا۔

ونیزویلا کے تجربات سے تیسرا اور سب سے اہم سبق جو ہم حاصل کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ انقلابی اکیلے سامراجی جارحیت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اگر منظم اور متحرک عوام کا ایک بڑا حصہ ان کی پشت پر صف آرا نہ ہو عوام کے ایک بڑے جتھے کو منظم اور متحرک کرنا انقلابیوں کی بقا کے لیے ناگریز ہے۔ عوام اپنی روایتی قیادت ہی کے ماتحت منظم اور متحرک ہوتے ہیں اور پاکستان میں عوام کی فطری قیادت آئمہ مساجد، علما کرام، صوفیان عظام اور ہمارے مبلغین کی جماعتیں ہی فراہم کر سکتی ہیں۔ انقلابی براہ راست عوام کی روز مرہ کی زندگی داخل ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ لہذا مصلحین کی صف بندیوں کے ذریعہ ہی انقلابی عوام تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔

مصلحین کی ادارتی صف بندیاں حصول قوت کی جدوجہد سے فی الحال تقریبا بالکل لاتعلق ہیں انقلابیوں کو ان کو باور کروانا ہے کہ تحفظ دین اور غلبہ دین اقامت دین کے دو مشترک پہلو ہیں۔ جب تک مصلحین کے تعاون سے مسجد کی سطح پر ایسا اسلامی اقتدار مرتب نہ ہو گا جو عوام کی روز مرہ کی زندگیوں کو متاثر کر سکے اس وقت تک اسلامی ریاست کے قیام کی جدوجہد غیر مربوط اور مضمحل رہے گی۔ انقلابیوں کے لیے ضروری ہے کہ محلہ یا بازار اور برادریوں کی سطح پر مخلصین دین کو مصلحین کی قیادت میں ایسے منظم اور متحرک کریں کہ اقتدار ریاستی عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ کے ہاتھوں سے نکل کر عوامی اسلامی اداروں (یعنی بین المسالک اوقاف المساجد) کے ہاتھوں میں مستقل منتقل ہوتا رہے۔

No comments.

Leave a Reply