معزول سوڈانی صدر عمر البشیر سے 1989ء میں فوجی بغاوت برپا کرنے پر تحقیقات

سوڈان کے معزول صدر عمر حسن البشیر

سوڈان کے معزول صدر عمر حسن البشیر

خرطوم ۔۔۔ نیوز ٹائم

سوڈان کے معزول صدر عمر حسن البشیر منگل کے روز پراسیکیوٹرز کی ایک کمیٹی کے رو برو پیش ہوئے ہیں جہاں ان سے 1989ء میں منتخب حکومت کے خلاف فوجی بغاوت برپا کرنے کے بارے میں پوچھ تاچھ کی گئی ہے۔ وہ اس بغاوت کے نتیجے میں برسراقتدار آئے تھے۔ ان کے وکیل Mohammad Al-Hasan نے بتایا ہے کہ عمر البشیر کو 1989ء کی فوجی بغاوت کی تحقیقات کے لیے لایا گیا تھا لیکن انھوں نے سماعت میں حصہ نہیں لیا ہے۔ وکیل نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی نظر میں یہ معاملہ عدالتی نہیں بلکہ سیاسی ہے۔ عمر البشیر اس فوجی بغاوت کے وقت بریگیڈئیر تھے اور انھوں نے اسلامی جماعتوں کی حمایت سے ایک منتخب حکومت کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا تھا اور منتخب وزیر اعظم Sadiq al-Mahdi کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ لیکن وہ 30 سال کی مطلق العنان حکمرانی کے بعد بھی اپنا اقتدار نہیں بچا سکے اور خود بھی ایسے ہی انجام سے دوچار ہوئے ہیں۔  عوام نے ان کے خلاف بغاوت برپا کر دی تھی اور فوج نے 11 اپریل کو ان کے اقتدار کا دھڑن تختہ کر دیا تھا۔اب وہ پس دیوار زنداں ہیں اور ان کے خلاف مختلف الزامات میں مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔

12 نومبر کو سوڈانی حکام نے عمر البشیر اور ان کے بعض معاونین کے خلاف 1989ء میں فوجی بغاوت برپا کرنے پر فردِ الزام عائد کی تھی۔ استغاثہ نے ان سے تحقیقات کے لیے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اگر وہ اس کیس میں قصور وار پاتے ہیں تو انھیں سوڈانی قانون کے تحت سزائے موت یا عمر قید کا سامنا ہو سکتا ہے۔ عمر البشیر کو خرطوم کی Al- prison prison سے سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری کی معیت میں پراسیکیوٹر کے دفتر میں لایا گیا تھا۔ انھیں کوئی ایک گھنٹے کی سماعت کے بعد جب واپس جیل لے جانے لگے تو وہاں ایک ہجوم جمع ہو گیا اور انھوں نے معزول صدر کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔ وہ انھیں لوگوں کا قاتل قرار دے رہے تھے۔ عمر البشیر روایتی سفید سوڈانی لباس جلابیہ میں ملبوس تھے۔ انھوں نے لوگوں کو دیکھ کر ہاتھ بلند کیے اور پھر انھیں قافلے کی شکل میں الکوبر جیل لے جایا گیا۔

معزول صدر ہیگ میں قائم عالمی فوجداری عدالت(آئی سی سی) کو بھی ملک کے مغربی علاقے Darfur میں نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت مخالف جرائم کے الزامات میں مطلوب ہیں لیکن سوڈان کی عبوری حکومت انھیں ہیگ میں قائم اس عدالت کے حوالے کرنے پر آمادہ نہیں ہوئی ہے۔ ان کے خلاف بدعنوانیوں کے الزامات میں بھی مقدمات چلایا جا رہا ہے اور ان کے خلاف بدعنوانیوں اور غیر قانونی طور پر غیر ملکی کرنسی رکھنے کے الزام میں جون میں فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔ ان پر جون میں اپیل کی مدت گزر جانے کے بعد عدالت میں کرپشن اور غیر ملکی کرنسی رکھنے کے الزامات میں مقدمہ دائر کیا گیا تھا۔  قبل ازیں پراسیکیوٹر جنرل نے ان کے خلاف بدعنوانیوں کے الزامات کی تحقیقات مکمل کر لی تھی۔ اس مقدمے کا آئندہ ہفتے کے روز فیصلہ متوقع ہے۔

سوڈان کی حکمراں فوجی کونسل کے سربراہ لیفٹیننٹ General Abdel Fattah al-Burhan نے مئی میں بتایا تھا کہ عمر البشیر کی رہائش گاہ سے 11 کروڑ 30 لاکھ ڈالر مالیت کی تین کرنسیوں میں نقدی برآمد ہوئی تھی۔ پولیس، فوج اور سیکیورٹی ایجنٹوں کی ایک ٹیم نے معزول صدر کی قیام گاہ سے70 لاکھ یورو 70) لاکھ ڈالر)، ساڑھے تین لاکھ ڈالر اور پانچ ارب سوڈانی پانڈز برآمد کیے تھے۔ سوڈان میں اس وقت سول اور فوجی ارکان پر مشتمل خودمختار کونسل کی حکومت ہے۔ یہ کونسل احتجاجی تحریک کے مطالبے کے مطابق ملک میں تین سال میں سول حکمرانی کے قیام کے لیے اقدامات کرے گی۔

No comments.

Leave a Reply