آصف زرداری کی طبی بنیادوں پر ضمانت منظور

سابق صدر آصف زرداری

سابق صدر آصف زرداری

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کی طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کر لی۔ وفاقی دارالحکومت کی عدالت میں چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں جسٹس عامر فاروق پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست پر سماعت کی۔ اس موقع پر آصف زرداری اور فریال تالپور کے وکیل فاروق ایچ نائیک عدالت میں پیش ہوئے جبکہ نیب کی جانب سے پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ اور ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران آصف زرداری کے وکیل کے علاوہ ان کے صاحبزادے اور چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری بھی موجود تھے۔ عدالت میں سماعت کے آغاز پر پمز ہسپتال کی جانب سے آصف زرداری کی میڈیکل رپورٹ پیش کی گئی، جس پر عدالت نے پوچھا کہ کیا نیب نے رپورٹ دیکھ لی ہے۔ ساتھ ہی چیف جسٹس نے نیب پراسیکیوٹر کو میڈیکل رپورٹ زور سے پڑھنے کی ہدایت کی، جس پر نیب پراسیکیوٹر نے سابق صدر آصف علی زرداری کی میڈیکل رپورٹ پڑھنا شروع کی۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر نیا میڈیکل بورڈ تشکیل دیا گیا، میڈیکل بورڈ نے آصف علی زرداری کا تفصیلی معائنہ کیا۔ عدالت میں پیش میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا کہ آصف زرداری مختلف قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور انہیں دل کا عارضہ بھی ہے۔ میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملزم طویل عرصہ سے شوگر کا مریض ہے جبکہ ان کے 3 اسٹنٹ بھی ڈلے ہوئے ہیں۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق آصف زرداری ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریض ہیں، ان کو دل کا عارضہ بھی لاحق ہے جبکہ انہیں انجیوگرافی کی ضرورت ہے۔

عدالت کو پیش کردہ میڈیکل رپورٹ میں بتایا گیا کہ آصف زرداری کے اسٹنٹ ڈالنے کے دوران انجیو پلاسٹی کی ضرورت بھی پڑ سکتی ہے اور جیل میں رہتے ہوئے ان کا علاج ممکن نہیں ہے۔ طبی رپورٹ میں بتایا گیا کہ آصف زرداری کا جیل میں رہنا ان کی جان کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے، اس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ سابق صدر ہسپتال میں ہی زیرعلاج ہیں، ان کے معاملے میں تفتیش مکمل ہو چکی ہے اور ریفرنس بھی دائر کیا جا چکا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا اس رپورٹ کے بعد ملزم کو اسی ہسپتال میں رکھا جائے گا۔ ساتھ ہی عدالت نے پوچھا کہ کیا سابق صدر اپنی مرضی کے معالج سے علاج کرا رہے ہیں، کیا نیب چاہتا ہے کہ آصف زردای کو قید کر کے قومی خزانے سے علاج جاری رکھا جائے؟ اس پر نیب پراسیکیوٹر کوئی جواب نہیں دے سکے۔ بعد ازاں پاک لین اور میگا منی لانڈرنگ ریفرنس میں آصف زرداری کی ضمانت کو منظور کرتے ہوئے ایک، ایک کروڑ روپے کے 2 ضمانتی مچلکے جمع کروانے کا حکم دے دیا۔ علاوہ ازیں فریال تالپور کی درخواست پر نیب کا جواب نہ آنے پر معاملے کو 17 دسمبر تک ملتوی کر دیا گیا۔

یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق صدر آصف علی زرداری کی ضمانت بعد از گرفتاری کے معاملے پر پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی سربراہی میں میڈیکل بورڈ بنانے کا حکم دیا تھا۔ واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کو 10 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت منسوخ ہونے پر نیب نے گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ابتدائی طور پر ان کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا تھا۔ بعد ازاں منی لانڈرنگ کے الزام میں گرفتار آصف زرداری کا عدالتی ریمانڈ دے دیا گیا تھا اور انہیں جیل منتقل کر دیا تھا، جہاں ان کی طبیعت خراب ہونے پر انہیں پمز منتقل کر دیا گیا تھا، جہاں وہ زیر علاج ہیں۔

آصف زرداری کی درخواست:

خیال رہے کہ گزشتہ دنوں عدالت عالیہ میں سابق صدر کی جانب سے اپنے وکیل فاروق ایچ نائیک کے توسط سے عدالت میں جعلی اکائونٹس اور پارک لین کیسز میں ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کی تھی۔آصف زرداری کی جانب سے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لیے دائر کی گئی درخواست میں قومی احتساب بیورو (نیب) اور احتساب عدالت نمبر 2 کو فریق بنایا گیا تھا۔ آصف زرداری نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا تھا کہ انہیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا جبکہ ان کے اوپر بنائے گئے کیسز جعلی اور من گھڑت ہیں۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ آصف علی زرداری دل کے مریض ہیں اور ان کے 3 اسٹنٹ ڈالے ہوئے ہیں جبکہ ان کے سینے سے ہولٹر مانیٹر بھی لگا ہوا ہے تاکہ ڈاکٹر ان کی دھڑکن کو مانیٹر کر سکیں۔ ساتھ ہی آصف زرداری نے یہ موقف اپنایا کہ ان کو ذیابیطس کا مرض بھی ہے اور ان کا شوگر لیول اوپر اور نیچے خطرناک حد تک ہوتا رہتا ہے، جس کی نگرانی کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ درخواست میں کہا گیا تھا کہ درخواست گزار کو مزید بیماریاں بھی لاحق ہیں، لہذا ان کے علاج کے لیے طبی بنیادوں پر درخواست ضمانت منظور کی جائے۔

آصف زرداری کے خلاف ریفرنسز:

آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور دیگر افراد جعلی بینک اکائونٹس کے ذریعے کرپشن اور پارک لین پرائیویٹ لمیٹڈ اور پارتھینن (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے لیے مالی معاونت میں غبن کے الزمات کا سامنا کر رہے ہیں۔ نیب کی جانب سے الزام ہے کہ ان بے ضابطگیوں کی وجہ سے 3 ارب 77 کروڑ روپے کا قومی خزانے کو نقصان پہنچا۔ جعلی اکائونٹس کیس کی بات کریں تو یہ 2015 ء کے جعلی اکائونٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے ہے، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکتداروں سے تحقیقات کی گئیں۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکائونٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبد الغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔ 7 ستمبر 2018 ء کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکائونٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔ اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 ء سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کر لیا تھا۔بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمی کو رپورٹ پیش کی تھی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے یہ کیس نیب کے سپرد کرتے ہوئے 2 ماہ میں تحقیقات کا حکم دیا تھا اور نیب نے اس کے لیے مشترکہ انویسٹی گیشن ٹیم قائم کی تھی، جس کے سامنے آصف زرداری پیش ہوئے تھے۔ 15 مارچ کو کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکائونٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ سے متعلق کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کی تھی۔ جس کے بعد اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے اس کیس میں نامزد 8 ملزمان کو طلب کرتے ہوئے سماعت 8 اپریل تک ملتوی کی تھی اور 9 اپریل کو احتساب عدالت نے باقاعدہ طور پر جعلی بینک اکائونٹس اور میگا منی لانڈرنگ کیس کی سماعت کا آغاز کیا تھا۔

ادھر اسلام آباد میں ایک کمپنی پارک لین اسٹیٹ پرائیویٹ لمیٹیڈ کی جانب سے مبینہ طور پر زمین کی خریداری کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب نے گزشتہ سال 13 دسمبر کو آصف علی زرداری اور بلاول دونوں کو راولپنڈی میں طلب کیا تھا۔ اس حوالے سے مصطفی نواز کھوکھر نے بتایا تھا کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کو پارک لین فرم کی جانب سے مبینہ طور پر لیے گئے قرض کی تحقیقات کے سلسلے میں نیب نے طلب کیا تھا اور دعوی کیا کہ بلاول اس کمپنی کے معمولی شیئر ہولڈر اسی وقت بن گئے تھے جب ان کی عمر صرف ایک سال تھی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ یہ کمپنی آصف علی زرداری نے 31 جولائی 1989 ء میں خریدی تھی اور جب 2008 ء میں انہوں نے صدر پاکستان کا عہدہ سنبھالا تو وہ کمپنی کی ڈائریکٹر شپ سے مستعفی ہو گئے تھے، بلاول بھٹو زرداری نے کبھی بھی ڈائریکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام نہیں دیں اور شیئر ہولڈر کی حیثیت سے ان کا کمپنی کے روز مرہ کے معمولات سے کوئی لینا دینا نہیں۔

No comments.

Leave a Reply