مشرف غداری کیس: خصوصی عدالت کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف

اسلام آباد ۔۔۔ نیوز ٹائم

سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت میں سنگین غداری کیس کا فیصلہ روکنے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی گئی۔ لاہور ہائی کورٹ کے بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر توصیف کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے 4 اپریل 2019 ء کو دیے گئے فیصلے کے تناظر میں بعد کے فیصلے کو منسوخ قرار دیا جائے۔  اخبار کی رپورٹ کے مطابق کہ 4 اپریل کو سپریم کورٹ نے حکم دیا تھا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ نہایت اہمیت کا حامل ہے لہذا اسے تیزی سے منتقی انجام تک پہنچایا جائے۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر سابق صدر 3 نومبر 2007 ء کو ایمرجنسی نافذ کرنے پر خصوصی عدالت میں پیش نہ ہوئے تو اپنا دفاع کا حق کھو دیں گے اور ملزم کو فائدہ پہنچانے کے لیے مقدمے کی کارروائی کنٹرول کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

سپریم کورٹ نے مذکورہ فیصلہ اس لیے جاری کیا تھا کہ خصوصی عدالت کسی منطقی انجام تک پہنچ سکے مذکورہ حکم نامے میں واضح ہدایت موجود تھی کہ اگر پرویز مشرف پیش نہ ہوئے تو ان کے خلاف کیس کی کارروائی کرمنل کوڈ پروسیجر کی دفعہ 342 کے تحت ان کا بیان ریکارڈ کیے بغیر جاری رکھی جائے۔ خیال رہے کہ 26 نومبر کو لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کر کے استدعا کی تھی کہ خصوصی عدالت کو سپریم کورٹ کی جانب سے مستعدی کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھنے کی ہدایت پر عمل کرنے کا حکم دیا جائے۔ تاہم 27 نومبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کے وکیل اور وزارت داخلہ کی ایک جیسی درخواستوں پر فیصلہ سناتے ہوئے خصوصی عدالت کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔

چنانچہ سپریم کورٹ میں دائر کردہ نئی درخواست میں توفیق آصف نے موقف اختیار کیا کہ ہائی کورٹ کا حکم آئین اور قانون سے متصادم تھا کیونکہ خصوصی عدالت کرمنل لا امینڈمنٹ ایکٹ 1976 کی دفعہ 4(1) کے تحت قائم کی گئی تھی اور ہائی کورٹ میں کوئی رٹ پٹیشن دائر نہیں کی جا سکتی۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ 1973ء کے آئین کے نفاذ کے بعد خصوصی عدالت کا طریقہ کار وضع کیا گیا  جبکہ ہائی کورٹ آئین کی دفعہ 199 شق 5 کے تحت رٹ پٹیشن پر سماعت نہیں کر سکتی۔ اسپیشل کورٹ ایکٹ 1976 کی دفعہ 12 شق 3 کے تحت اپیل کا حق درخواست گزار کا ہے جبکہ وزارت داخلہ سنگین غداری کیس کے فیصلے سے بچنے کے لیے تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے۔ مذکورہ درخواست میں وزارت داخلہ، سابق صدر پرویز مشرف، خصوصی عدالت اور وفاقی حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔

سنگین غداری کیس:

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے 3 نومبر 2007 ء کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور آئین و معطل کرنے کے خلاف سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ درج کیا تھا جس کی متعدد سماعتوں میں وہ پیش بھی نہیں ہوئے اور بعد ازاں بیماری کی وجہ سے ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے رواں سال 19 نومبر 2019 ء کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے 28 نومبر کو سنایا جانا تھا۔ تاہم مذکورہ فیصلے کو روکنے کے خلاف پرویز مشرف نے لاہور اور اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔ ساتھ ہی وفاقی حکومت نے بھی خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکنے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ جس پر 27 نومبر کو ہونے والی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے خصوصی عدالت کو سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا تھا۔ جس کے بعد 28 نومبر کو سنگین غداری کیس کی سماعت میں اپنے تحریری فیصلے میں خصوصی عدالت نے کہا تھا وہ ہائی کورٹ کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے اور 3 ججز پر مشتمل بینچ کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کے پابند نہیں۔

No comments.

Leave a Reply