ترک صدر کا لیبیا میں اپنی فوج بھیجنے کا اعلان

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اور تیونس کے صدر قیس  سعید

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان اور تیونس کے صدر قیس سعید

تونس ، انقرہ  ۔۔۔ نیوز  ٹائم

ترکی کے صدر رجب طیب اردگان بدھ کے روز غیر اعلانیہ دورے پر تیونس پہنچے جہاں کل جمعرات کو انہوں نے اپنے تیونسی ہم منصب قیس سعید سے تفصیلی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں دونوں رہنمائوں نے لیبیا کی قومی وفاق حکومت کے سربراہ فائز السراج کی قیادت میں قائم حکومت کی حمایت اور مدد پر اتفاق کیا ہے۔ تاہم دوسری طرف تیونس کے عوامی اور سیاسی حلقوں میں ترک صدر کے دورے پر سخت مایوسی اور خوف کی فضا پائی جا رہی ہے۔ تیونس اور ترکی کی جانب سے لیبیا کی قومی وفاق حکومت کی حمایت اور مدد کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب ترکی نے شام میں فائز السراج کی مدد کے لیے فوج تعینات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ پیشرفت لیبیا کی نیشنل آرمی کی پیش قدمی روکنے کی ایک نئی کوشش ہے۔

جمعرات کے روز وطن واپسی پر ترک صدر رجب طیب اردگان نے حکمراں جماعت ‘آق’ کے ارکان سے ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا کی قومی وفاق حکومت کی طرف سے طرابلس میں مداخلت اور مدد کی درخواست کی گئی ہے۔ ترکی 8 جنوری کو پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد اپنی فوج لیبیا میں تعینات کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ لیبیا کی صورت حال پر انہوں نے اپنے تیونس ہم منصب قیس سعید سے بھی بات چیت کی ہے۔ دونوں ملکوں نے لیبیا کی بھرپور مدد پر اتفاق کیا ہے۔ ترکی اور تیونس، لیبیا میں فائز السراج کی حکومت کو آئینی اور قانونی حکومت سمجھتے ہیں اور اس کی مدد کو اپنا فرض قرار دیتے ہیں۔

ترک صدر طیب اردگان نے تیونس کا اچانک دورہ کیا۔  اس دورے میں ترک وزیر خارجہ Mevlüt Çavuşoğlu ، وزیر دفاع Hulusi Akar ، انٹیلی جنس چیف Hakan Fidan اور دیگر اعلی حکام موجود تھے۔ انہوں نے تیونس کے صدر قیس سعید اور دیگر عہدیداروں سے ملاقات کی۔ ان کے اس دورے پر کئی قسم کی چہ مے گوئیاں کی جا رہی ہیں۔  سیاسی اور عوامی حلقوں میں اسے متنازع، مایوس کن اور خوف کی علامت دورہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس دورے کے اہداف اور اغراض و مقاصد پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ترک صدر نے یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب دوسری طرف انقرہ نے طرابلس میں مداخلت کے لیے منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ترکی اس منصوبے میں دوسرے ممالک کو بھی شامل کرنا چاہتا ہے۔  تیونسی حکومت اور ایوان صدر کی طرف سے ترک صدر کے دورے کے خدشات پر خاموشی کا اظہار بھی تشویش کا باعث ہے۔

تیونس کی دستور پارٹی کی طرف سے جمعرات کے روز پارلیمنٹ میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ ترک صدر کے دورہ تیونس کی تفصیلات سامنے لائی جائیں۔ بیان میں کہا گیا کہ ترک صدر رجب طیب اردگان کا لیبیا کے معاملے میں تیونس سے مدد طلب کرنا دوسرے ملکوں میں مداخلت کے لیے نئی صف بندی کی کوشش کے ساتھ قومی و سلامتی پر ضرب لگانے اور علاقائی اور عالمی محور سے باہر نکلنے کی کوشش ہے۔ تیونسی سیاسی جماعت کا کہنا ہے کہ ترک صدر کا غیر اعلانیہ اور پراسرار دورہ تیونسی عوام میں بھی تشویش کا باعث ہے۔  رائے عامہ میں ان کے اس دورے پر خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔  حیران کن امر یہ ہے کہ صدر قیس سعید سے ملاقات کے دوران تیونسی وزیر خارجہ بھی موجود نہیں تھے۔

‘تیونس پروگرام موومنٹ’ کی طرف سے جاری ایک بیان میں بھی ترک صدر طیب اردگان کے دورے پر تنقید کی گئی۔  بیان میں کہا گیا ہے کہ ترکی، لیبیا کی قومی وفاق حکومت کے ساتھ تعاون کی آڑ میں نئی صف بندی کر رہا ہے۔ تیونس پروگرام موومنٹ نے صدر قیس سعید اور حکومت پر زور دیا کہ وہ عرب محور سے باہر نہ نکلے اور علاقائی مسائل اور تنازعات کے حل کے لیے عرب ممالک کو ساتھ لے کر چلے۔  تیونس کی سیاسی جماعت ‘آفاق تیونس’ نے بھی ترک صدر کے غیر اعلانیہ دورے کو حیران کن اور باعث تشویش قرار دیا۔ آفاق تیونس کا کہنا ہے کہ تیونس کو علاقائی نظریاتی لڑائیوں سے خود کو دور رکھنا چاہیے۔ تیونس کا ترکی کے کیمپ میں جانا ملک کی قومی سلامتی اور تزویراتی حکمت عملی کے لیے نقصان دہ ہے۔

دوسری  جانب ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے تریپولی کی درخواست پر آئندہ ماہ لیبیا میں اپنی فوج بھیجنے کا اعلان کر دیا ہے۔ لیبیا کی عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت مشرقی لیبیا میں ایک ماہ سے زائد عرصے سے جنرل خلیفہ ہفتر کے خلاف برسرپیکار ہے  جہاں جنرل ہفتر کو متحدہ عرب امارات، روس اور مصر کی حمایت حاصل ہے۔ گزشتہ ماہ ترکی نے لیبیا کی حکومت کے ساتھ دو معاہدے کیے تھے جن میں سے ایک سیکیورٹی اور فوجی تعاون پر مبنی تھا جبکہ دوسرا مشرقی بحیرہ روم میں میری ٹائم سرحدوں کے حوالے سے تھا۔

اردوان نے اپنی پارٹی کے رہنمائوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں دعوت ملی ہے جسے ہم قبول کرتے ہیں، ہم لیبیا فوج بھیجنے کا بل جلد از جلد پارلیمنٹ میں پیش کریں گے جس کے بعد 8 سے 9 جنوری تک قانون ہو جائے گی اور ہم فوج بھیج سکیں گے۔ ترکی کئی ہفتوں سے اس نئی مہم کے حوالے سے عندیہ دے رہا تھا اور اس مشن کے آغاز کے ساتھ ہی ترکی کی فوجی مہمات میں مزید توسیع ہو جائے گی جہاں تین ماہ قبل ہی ترکی نے شمال مشرقی شام میں کرد ملیشیا کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے ہتھیار کی ترسیل پر پابندی کے باوجود ترکی پہلے ہی لیبیا کو ہتھیار فراہم کر چکا ہے۔ بدھ کو اردگان نے تیونس کا دورہ کیا تھا جس میں تیونس سے پڑوسی ملک لیبیا میں سیزفائر کے لیے تعاون سمیت دیگر امور پر بھی بات چیت کی گئی اور جمعرات کو دونوں ملکوں نے لیبیا کی عالمی سطح پر منظور شدہ حکومت کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔

روس کے ساتھ کشیدگی:

ادھر ترکی کی جانب سے لیبیا میں ممکنہ فوجی امداد پر روس نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا جس پر ترک صدر نے روس کی جانب سے جنرل ہفتر کی امداد پر انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ انہوں نے کہا کہ ہفتر کی مدد کے لیے 2000 ویگنر جنگجوئوں کے ساتھ روس خود لیبیا میں موجود ہے، کیا انہیں سرکاری حکومت نے بلایا تھا؟ نہیں۔ یہ سب ہفتر کی مدد کر رہے ہیں جبکہ ہم نے ایک قانونی حکومت کی جانب سے دعوت کو قبول کیا ہے، ہم دونوں میں یہی فرق ہے۔

No comments.

Leave a Reply