بینظیر بھٹوکی 12ویں برسی (2007-1953)

پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو شہید

پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو شہید

کراچی، راولپنڈی  ۔۔۔ نیوز ٹائم

سابق وزیر اعظم پاکستان اور پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو شہید کو گزرے 12 برس بیت گئے۔ ہر سال 27 دسمبر کو محترمہ کی برسی کے موقع پر سندھ بھر میں عام تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے۔ سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی بڑی بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو 21 جون 1953ء کو سندھ کے سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کراچی اور روالپنڈی سے حاصل کی اور اس کے بعد مری کے جیسس اینڈ میری سے 15 سال کی عمر میں او لیول کا امتحان پاس کیا۔ ہارورڈ یونیورسٹی سیپولیٹیکل سائنس میں گریجویشن اور اس کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ، معاشیات اور سیاسیات میں ایم اے کیا۔

1977 میں بی نظیر اس ارادے سے وطن واپس آئیں کہ وہ خارجہ امور میں خدمات سرانجام دیں گی، مگر کچھ عرصے میں ہی جنرل ضیاء الحق نے ان کے والد ذوالفقار بھٹو کو جیل بھیج کر ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ بینظیر بھٹو کو ان کے گھر نظربند کر دیا۔ 1979 میں ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک متنازع کیس میں پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ 1981 میں مارشل لا کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے ایم آر ڈی کے نام سے اتحاد بنایا گیا۔  جس میں آمریت کے خلاف 14 اگست 1983ء سے بھرپور جدوجہد کا آغاز کیا گیا اور پھر تحریک کی قیادت کرنے والے غلام مصطفی جتوئی نے دسمبر 1983ء میں تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کیا، لیکن عوام نے جدوجہد جاری رکھی۔  1984 میں بے نظیر کو جیل سے رہائی ملی، جس کے بعد انھوں نے دو سال تک برطانیہ میں جلاوطنی کی زندگی گزاری۔  اسی دوران پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کی جانب سے انہیں پارٹی کا شریک چئیرمین بنا دیا۔

 ملک سے مارشل لا ختم ہو جانے کے بعد بے نظیر وطن واپس آئیں۔ 1987میں بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری سے شادی ہو گئی اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سیاسی جدوجہد بھی جاری رکھی ۔ 17 اگست 1988ء میں ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے تو ملک کے اندر سیاسی صورتِحال بدل گئی اور سینٹ کے چئیرمین غلام اسحاق کو قائم مقام صدر بنا دیا گیا۔  جنہوں نے 90 دن کے اندر انتخابات کروانے کا اعلان کیا۔ 16 نومبر 1988ء کو ملک میں عام انتخابات میں پیپلز پارٹی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور بینظیر بھٹونے 2 دسمبر 1988ء کو 35 برس کی عمر میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لیا اور وہ ایک مسلمان ریاست کی قیادت کرنے والی پہلی خاتون بھی تھیں۔

 اگست،1990ء میں 20 ماہ کے بعد صدر اسحاق خان نے بے نظیر کی حکومت کو بے پناہ بدعنوانی اور کرپشن کی وجہ سے برطرف کر دیا۔  2 اکتوبر، 1990ء  کو ملک میں نئے انتخابات ہوئے جس میں مسلم لیگ ن  اور بے نظیر حکومت کی مخالف جماعتوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے نام سے الائنس بنایا اور انتخابات میں اکثریت حاصل کی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف وزیر اعظم بن گئے  جبکہ بے نظیر قائدِ حزبِ اختلاف بن گئیں۔  1993 میں صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف کی حکومت کو بھی بدعنوانی کے الزام میں برطرف کر دیا۔  جس کے بعد اکتوبر 1993ء میں عام انتخابات ہوئے اور بے نظیر نے ایک مرتبہ پھر وزارت عظمی کا عہدہ سنبھالا۔ 1996 میں پیپلز پارٹی کے اپنے ہی صدر فاروق احمد خان لغاری نے بے امنی اور بدعنوانی، کرپشن اور ماورائے عدالت قتل کے اقدامات کے باعث بے نظیر کی حکومت کو برطرف کر دیا۔

 بینظیر بھٹو نے اپنے بھائی مرتضی بھٹو کے قتل اور اپنی حکومت کے خاتمے کے کچھ عرصہ بعد ہی جلاوطنی اختیار کرتے ہوئے متحدہ عرب امارات میں قیام کیا۔  18 اکتوبر 2007ئ، پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بینظیر بھٹو تقریبا ساڑھے 8 سال کی جلاوطنی ختم کر کے وطن واپس آئیں تو ان پر کراچی میں حملے کی کوشش کی گئی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو 27 دسمبر 2007 ء کو لیاقت باغ جلسے سے خطاب کے بعد روانہ ہوئیں۔ لیاقت روڈ کے قریب جیالوں کا ہجوم دیکھ کر بے نظیر بھٹو ان کے نعروں کا جواب دینے کے لئے اپنی گاڑی کی چھت کھول کر باہر نکلیں، اسی لمحے مجمع میں ایک دہشت گرد بھی موجود تھا، جس نے 2 سے 3 میٹر کی دوری سے بینظیر بھٹو کو گولیوں کا نشانہ بنا ڈالا اور خود کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا لیا۔ بے نظیر بھٹو کو زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے 27 دسمبر 2007 کو جاں بحق ہو گئی اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہمیشہ کے لئے بند ہو گیا۔  بینظیر بھٹو اپنے والد ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد آمریت کے خلاف طویل جدوجہد کے باعث تین دہائیوں تک پاکستان کی سیاست پر چھائی رہیں۔ بینظیر بھٹو  آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ہر سال ان کی برسی کے موقع انہیں یاد کر کے لاکھوں آنکھیں  نم ہو جاتی ہیں۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، 27 دسمبر 2007 ء کو خودکش حملے اور فائرنگ میں بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد پہلی مرتبہ سابق وزیر اعظم کی برسی کے موقع پر لیاقت باغ میں جلسے کے لیے تیار ہے۔ اس موقع پر لیاقت باغ جانے والے راستوں اور جلسے کے مقام کو پاکستان پیپلز پارٹی کے پرچموں، ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو اور بلاول بھٹو زرداری کی تصاویر سے سجایا گیا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کریں گے جس میں شرکت کے لیے ملک بھر سے پارٹی کارکنان اور حامی راولپنڈی پہنچ رہے ہیں۔ علاوہ ازیں اندرون سندھ، خیبر پختونخوا، پنجاب، گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر سے جلسے کے اکثر شرکا پہلے ہی پہنچ چکے ہیں اور پیپلز پارٹی نے مقامی ہوٹلوں میں ان کے قیام کے انتظامات کیے ہیں۔

جلسے کے موقع پر لیاقت باغ میں 50 ہزار سے زائد کرسیاں لگائی گئیں ہیں، پارک میں اسٹیج اور سائونڈ سسٹم کو اسی طریقے سے نصب کیا گیا ہے جب بینظیر بھٹو نے 27 دسمبر، 2007 ء کو لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کیا تھا۔ گزشتہ روز لاہور ہائی کورٹ کی راولپنڈی بینچ نے ضلعی انتظامیہ کو جلسے کے لیے تمام سہولیات اور سیکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم پیپلز پارٹی نے اپنے طور پر بھی سیکیورٹی کے انتظامات کیے ہیں۔ سینیٹ میں پاکستان پیپلزپارٹی کی پارلیمانی رہنما شیری رحمن نے جلسے کے مقام کا دورہ کیا تھا اور انتظامات کا جائزہ لیا تھا۔ انہوں نے لیاقت باغ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ  12 سال بعد، پاکستان پیپلز پارٹی یہاں جلسہ کر رہی ہے  اور یہ اس تاثر کو دور کرنے کی کوشش ہے کہ پارٹی راولپنڈی میں جلسہ نہیں کر سکے گی۔ شیری رحمن نے کہا کہ  بلاول بھٹو کے لیے اس مقام کا دورہ کرنا انتہائی دکھ کا لمحہ ہو گا جہاں ان کی والدہ کو شہید کیا گیا، جیالوں کے لیے بھی اس جگہ جمع ہونا اور اس افسوسناک دن کو یاد کرنا مشکل ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت میں ملک کے ہر کونے میں بھی سیاسی سرگرمیاں شروع کی جائیں گی۔

پیپلز پارٹی کی رہنما نے کہا کہ جلسے سے ایک روز قبل لیاقت باغ کے اطراف تمام راستے پارٹی کارکنوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ  چلو چلو لیاقت باغ چلو کا نعرہ ملک بھر میں گونج رہا ہے۔ شیری رحمن نے کہا کہ مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی مشکل بنا دی ہے، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت یوٹیلیٹی بلز میں اضافہ کر کے شہریوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی رہنما نے کہا کہ  26 دسمبر کو بجلی کے ٹیرف میں اضافہ کیا گیا اور ہم حکومت کی نااہلی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلاول بھٹو عوام کی پریشانیوں کا خاتمہ کریں گے اور اپنی والدہ کی جانب سے پاکستان کے عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کریں گے۔ شیری رحمن نے کہا کہ  پیپلز پارٹی پنجاب میں اور وفاق کی تمام اکائیوں میں سرگرم ہو گی کیونکہ یہ وہ جماعت ہے جو ملک کی بات کرتی ہے۔ علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کے وومن ونگ اور پیپلز یوتھ آرگنائزیشن نے شہر کے مختلف علاقوں میں ریلیاں نکالیں، فیض آباد سے 200 سے زائد نوجوانوں نے موٹرسائیکلوں پر ریلیاں نکالیں۔ پیپلزپارٹی اسلام آباد کے وومن ونگ نے بھی ریلی کا انعقاد کیا اور عظمی ناصر کی قیادت میں ریلی نکالی، ریلی کا آغاز مری روڈ سے ہوا جو لیاقت باغ کے باہر یادگار پر اختتام پذیر ہوئی۔

No comments.

Leave a Reply