ٹرمپ کے مشرق وسطی امن منصوبے پر ملا جلا عالمی ردعمل، ترکی نے مسترد کر دیا

ٹرمپ کے مشرق وسطی امن منصوبے پر مختلف ممالک میں احتجاج

ٹرمپ کے مشرق وسطی امن منصوبے پر مختلف ممالک میں احتجاج

لندن  ۔۔۔ نیوز ٹائم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان جاری دیرنیہ تنازع کے حل کے لیے پیش کردہ امن فارمولے کے حوالے سے عالمی برادری ملا جلا ردعمل ظاہر کر رہی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے ترجمان نے ایک بیان میں بتایا کہ مشرق وسطی کے امن منصوبے پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بورس جانسن کے درمیان ٹیلیفون پر بات چیت ہوئی ہے۔ وزیر اعظم جانسن نے کہا ہے کہ امن فارمولہ مثبت نکات پر مشتمل ہونا چاہیے تاکہ تمام فریقین اسے قبول کر لیں۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں رہنمائوں کے درمیان امریکا کے مشرق وسطی امن منصوبے کے نکات پر تبادلہ خیال ہوا ہے۔

روسی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ امریکی امن پروگرام تجاویز پر مبنی فارمولہ ہے تاہم واشنگٹن کو اپنا فیصلہ مسلط کرنے کا کوئی حق نہیں۔ وزارت خارجہ کی طرف سے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ فریقین بات چیت کے ذریعے اپنے مسائل کے حل پر زور دیں۔ روسی نائب وزیر خارجہ میخائل یوگدانوف (Mikhail Bogdanov) نے کہا کہ فلسطینی اور اسرائیلی دو ریاستی حل کے لیے خود مذاکرات کریں۔  ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکا کی امن تجاویز فریقین کے لیے قابل قبول ہوئیں تو ہم دیگر فریقین کے ردعمل کو دیکھ کر فیصلہ کریں گے۔

  ترکی نے امریکی صدر کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ امریکی امن منصوبہ میں فلسطینی اراضی چوری کرنے  اور اسرائیلی ریاست کی قیمت پر فلسطینی ریاست کے قیام کو دبانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ترک وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ امریکی امن منصوبہ امریکا کی طرف سے پیش کردہ امن منصوبہ فلسطینی ریاست کے تصور کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔ امریکی امن تجاویز مردہ پیدا کرنے کے مترادف ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ٹرمپ کے امن منصوبے پر اپنے ردعمل میں کہا کہ مشرق وسطی میں کسی بھی امن پروگرام میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔ جرمن وزیر خارجہ ھایکوس ماس (Heiko Maas) نے کہا کہ مشرق وسطی میں ایسا کوئی بھی فارمولہ قبول کیا جا سکتا ہے جس پر فلسطینی اور اسرائیلی دونوں متفق ہوں۔ ایسا فارمولا ہی فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان دائمی اور دیرپا امن کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی امن منصوبے پر غور کیا جا رہا ہے۔  اس حوالے سے دیگر اتحادیوں کے ساتھ بھی صلاح مشورہ کیا جائے گا۔ یورپی یونین کی طرف سے امریکی امن منصوبے صدی کی ڈیل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطی کے لیے ایسا حل پیش کیا جائے جس میں دو ریاستی حل کی تجویز پیش کی گئی ہو۔

یورپی یونین کے وزیر خارجہ جوزیپ پوریل (Josep Borrell) نے کہا کہ یونین، امریکی امن فارمولے میں پیش کردہ تجاویز کا مطالعہ کرے گی۔ انہوں نے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات کے جمود کو ختم کرنے اور بامقصد بات چیت شروع کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس (António Guterres) کے ترجمان نے امریکی امن منصوبے پر اپنے ردعمل میں کہا  کہ اقوام متحدہ، فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن کوششوں کو آگے بڑھانے کی مساعی کا عزم کرتا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ مشرق وسطی میں دیرپا امن کے قیام کے لیے اسرائیل کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی قوانین پر عملدرآمد کرنا ہو گا۔

اسرائیل کو 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے علاقوں کو خالی کر کے فلسطینیوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کی کوشش کرنا ہو گی۔ یو این سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوگریک (Stéphane Dujarric) نے کہا کہ اقوام متحدہ کا تنازع فلسطین کے دو ریاستی حل کے حوالے سے موقف واضح ہے۔ مشرق وسطی کے تنازع کو سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی منظور شدہ قراردادوں کی روشنی میں حل کرنا ہو گا۔

No comments.

Leave a Reply