امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مواخذہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ

واشنگٹن ۔۔۔ نیوز  ٹائم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کا مقدمہ بتدریج آگے بڑھ رہا ہے۔ تازہ ترین کارروائی میں ٹرمپ کی دفاعی ٹیم ڈیموکریٹک پارٹی پر جوابی الزامات لگا رہی اور کہہ رہی ہے  کہ یہ سب دراصل ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر نالاں ہیں اور اس انتخاب کے نتائج کو بدل کر ٹرمپ کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ واضح رہے کہ دنیا کے اکثر ممالک کی طرح امریکا میں بھی یہ قانون ہے کہ الزام لگانے والوں کو اپنا الزام ثابت کرنا ہوتا ہے اور ملزم کو دفاع کا حق ہوتا ہے لیکن ملزم پر خود کو معصوم یا بے گناہ ثابت کرنے کی ذمہ داری نہیں ہوتی، بلکہ اسے مجرم ثابت کرنا مخالف فریق کا کام ہوتا ہے۔

یہ بات دلچسپی کا باعث ہے کہ امریکا کی آزاد تاریخ میں تقریبا 250 برس کے عرصے میں یہ تیسری مرتبہ ہو رہا ہے کہ امریکی صدر کو مواخذے کے ذریعے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آیئے تھوڑی وضاحت کریں کہ مواخذہ ہوتا کیا ہے۔ مواخذہ ایک ایسے عمل کا نام ہے جس میں صدر کے خلاف لگائے گئے الزامات کو عوامی نمائندوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ امریکا میں صدر کو ہٹانے کے لئے کسی بڑے جرم کا مرتکب ہونا ضروری ہے۔ مثلا بغاوت یا رشوت کے الزامات پر مواخذے کی کارروائی کا آغاز ہوتا ہے اسی طرح کسی بڑی بدعملی کے باعث بھی مواخذہ کیا جا سکتا ہے۔ اکثر ایسے ممالک جہاں دو ایوانی مقننہ ہوتی ہے وہاں دونوں ایوانوں سے مواخذے کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔  چونکہ امریکا میں بھی دو ایوان ہیں یعنی ایوان نمائندگان یا قومی اسمبلی اور سینیٹ یعنی ایوان بالا، اس سے صدر ٹرمپ کا مواخذہ بھی اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک کہ دونوں ایوان اس کی منظوری نہ دیں۔ عام طور پر مواخذے کی کارروائی کا آغاز ایوان نمائندگان سے کیا جاتا ہے، جہاں سادہ اکثریت سے اسے منظور کیا جا سکتا ہے، پھر اس کا مقدمہ سینیٹ میں چلتا ہے۔ اگر سینیٹ میں مواخذے کو دو تہائی اکثریت سے منظوری مل جائے تو مواخذہ کر کے صدر کو برطرف کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ایسا آج تک نہیں ہو سکا۔

صدر ٹرمپ سے قبل دو امریکی صدر مواخذے کا سامنا کر چکے ہیں۔ 1990ء کے عشرے میں صدر بل کلنٹن (Bill Clinton)  پر سب سے بڑا الزام جھوٹ بولنے اور انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے کا تھا۔ انہوں نے وائٹ ہائوس میں اپنی ایک رفیق کار مونیکا لیونسگی  (Monica Lewinsky)  کے ساتھ تعلقات قائم کئے تھے اور پھر اس بارے میں یکسر مکر گئے تھے،  مگر ان کے جھوٹ کا پردہ فاش ہو گیا تو انہیں معافی مانگنا پڑی تھی لکین بعد از خرابی  پہلے تو 1998ء میں ایوان نمائندگان میں ان کے خلاف مواخذے کی تحریک سادہ اکثریت سے منظور کر لی گئی  اور پھر 1999ء جب یہ معاملہ سینیٹ میں پیش ہوا تو وہاں اسے دو تہائی حمایت حاصل نہ ہو سکی اور اس طرح یہ تحریک ناکام ہو گئی اور صدر کلنٹن اپنے عہدے پر برقرار رہے۔ اس وقت بھی وہ عوام میں خاصے مقبول تھے اور سروے کے مطابق 70 فیصد امریکی ان کے حامی تھے۔

اس کے قبل مواخذے کا شکار ہونے والے صدر عام تاثر کے برعکس رچرڈ نکسن (Richard Nixon)  نہیں تھے، جنہوں نے مواخذے سے قبل خود ہی استعفی دے دیا تھا یہ بات 1974ء کی ہے۔  کلنٹن سے پہلے مواخذہ صدر اینڈرو جانسن  (Andrew Johnson)  کا ہوا تھا۔  یاد رہے کہ امریکی تاریخ میں 100 سال کے وقفے سے دو صدر جانسن  (Johnson)  ہوئے ہیں۔ پہلے 1860ء کے عشرے میں اینڈرو جانسن (Andrew Johnson)   اور پھر 100 سال بعد 1960ء کے عشرے میں صدر لنڈن بی جانس   (Lyndon B. Johnson) دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں صدر جانسن  (Johnson) پہلی مرتبہ خود صدر منتخب نہیں ہوئے تھے، بل کہ صدر کے قتل کے بعد خود بخود نائب صدر سے آئینی طور پر ترقی پا کر صدر امریکا بن گئے تھے۔ اینڈرو جانسن (Andrew Johnson) مارچ 1865ء میں امریکی صدر، ابراہام لنکن  (Abraham Lincoln) کے ساتھی کے طور پر نائب صدر بنے اور جب اپریل 1865ء میں صدر ابراہام لنکن   (Abraham Lincoln)  کا قتل ہو گیا تو اینڈرو جانسن (Andrew Johnson) صدر بن گئے تھے۔  اسی طرح 1963ء میں صدر جان ایف کینیڈی ( (John F. Kennedy)  کے قتل کے بعد نائب صدر لنڈن بی جانسن (Lyndon B. Johnson) صدر بن گئے۔  صدر اینڈرو جانسن (Andrew Johnson) کے خلاف مواخذے کی تحریک بھی کامیاب نہ ہو سکی تھی اور انہوں نے اپنی 4 سالہ مدت صدارت مکمل کی تھی، گو کہ ان کے خلاف دو تہائی اکثریت میں صرف ایک ووٹ کی کمی رہ گئی تھی اور اس کی وجہ یہی تھی کہ سینیٹ میں ریپبلکن پارٹی کے ارکان زیادہ تھے جیسا کہ اس وقت صدر ٹرمپ کے ساتھ ہو رہا ہے۔

اس وقت صدر ٹرمپ کے خلاف جو کارروائی ہو رہی ہے اس میں وائٹ ہائوس کے وکیل پیٹ سیپولینی (Pat Cipollone) تو بے دھڑک کہہ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے کچھ بھی غلط نہیں کیا ہے۔ بظاہر تو یہی امکان نظر آتا ہے کہ صدر کے مواخذے کو کامیابی نہیں ملے گی۔ صدر ٹرمپ پر سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور کانگریس یعنی پارلیمان کے کام میں رکاوٹ ڈالی۔  تفصیل اس امر کی یہ ہے کہ گزشتہ سال جولائی میں یوکرین کے صدر کو ایک ٹیلیفون کیا گیا  جس میں ان پر دبائو ڈالا گیا کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کے ممکنہ صدارتی امیدوار اوبام کے سابق نائب صدر جوبائیڈن (Joe Biden) کے خلاف تحقیقات شروع کریں۔ صدر ٹرمپ اس الزام سے یکسر انکار کر رہے ہیں کہ انہوں نے یوکرین کے صدر کو جوبائیڈن کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ ٹرمپ پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے یوکرین کے صدر کے دورہ امریکا کو بائیڈن کے خلاف تحقیقات سے مشروط کر دیا تھا  یعنی ٹرمپ کا دبائو تھا کہ اگر یوکرین کے صدر امریکا کا دورہ کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ٹرمپ کو سیاسی فائدے پہنچانے ہوں گے۔ دوسری طرف یوکرین کے صدر Volodymyr Zelensky بھی اس بات سے انکار کر رہے ہیں کہ ان پر دبائو ڈالا گیا۔  ظاہر ہے کہ اگر یوکرین کے صدر اس بات کا اعتراف کرتے ہیں تو خود ان کی شہرت نہ صرف ان کے ملک میں بلکہ بین الاقوامی طور پر بھی خراب ہو جائے گی۔ پچھلے ہفتے صدر ٹرمپ کے دفاعی وکلا کی ٹیم نے ایک خط بھی لکھا ہے جس میں مواخذے کی کارروائی کو عوام دشمن قرار دیا گیا ہے۔  6 صفحات کا یہ خط جوابی الزامات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا کہ مواخذہ عوام پر حملہ ہے  اور اس کے ذریعے نہ صرف 2016 ء میں منتخب صدر کی کردار کشی کی جا رہی ہے  بلکہ 2020 ء میں ان کے دوبارہ امیدوار بننے کے امکانات کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت ہے۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ صدر کی قانونی ٹیم میں جو وکلا شامل ہیں ان میں وہ وکلا بھی موجود ہیں جنہوں نے صدر کلنٹن کے خلاف کارروائی میں تفتیش کی تھی۔  صدر ٹرمپ کے خلاف تفتیشی کارروائی ستمبر 2019ء سے نومبر 2019ء تک دو ماہ میں کی گئی اور پھر 18 دسمبر 2019ء کو ایوان نمائندگان نے مواخذے کی کارروائی کو باقاعدہ منظوری دے دی تھی۔

اب آیئے دیکھتے ہیں اس مواخذے میں اہم کردار کون ہیں۔ سب سے پہلے تو سینیٹ میں اکثریتی رہنما مچ میک کونیل (Mitch McConnell)  ہیں۔ جو پچھلے 5 سال سے سینیٹ میں ری پبلکشن پارٹی کی قیادت کر رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ 8 سال 2007 ء سے 2015ء تک سینیٹ میں جب ری پبلکن پارٹی اقلیت میں تھی اس وقت بھی اس کے رہنما تھے۔ مچ  میک کو نیل  (Mitch McConnell) 1985ء کے بعد 35 سال سے مسلسل سینیٹ کے رکن منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کے بعد چک گراس (Chuck Grass) کی ہیں جو سینیٹ کے نائب سربراہ ہیں واضح رہے کہ سینیٹ کے سربراہ امریکی نائب صدر ہوتے ہیں۔  87سالہ چک گراس (Chuck Grass) کو پچھلے 40 سال سے سینیٹ کے رکن منتخب ہو رہے ہیں۔ پھر امریکا کے چیف جسٹس جان رابرٹس  (John Roberts )  ہیں۔ جنہیں امریکی صدر جارج بش جونیئر نے 2005 ء میں صرف 50 کی عمر میں چیف جسٹس بنایا تھا۔

امریکا میں چیف جسٹس کی نامزدگی صدر امریکا کا حق ہے جسے سینیٹ سے منظوری لینا ہوتی ہے جو مل ہی جاتی ہے۔ اس نامزدگی میں عمر کا کوئی دخل نہیں ہوتا اور ممکن ہے کہ کسی عمر رسیدہ جج کی موجودگی میں ہر کسی کی نسبتاً کم عمر جج کو چیف جسٹس بنا دیا جائے اور اس میں کوئی قباحت نہیں۔ امریکا میں چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں اور کئی جج 30,25 سال تک بھی چیف جسٹس رہ چکے ہیں۔  اسی لیے امریکا کی پوری تاریخ میں 230 سال میں صرف 17 چیف جسٹس ہوئے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں ہیں جن میں چیف جسٹس نے خود استعفی دیا ہو یا ریٹائرمنٹ لی ہو۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پچھلے 70 سال میں جو 4 چیف جسٹس گزرے ہیں ان چاروں کی نامزدگی ری پبلکن صدور نے کی ہے۔ یعنی آئزن پاور Alison Power ، نکسن، ریگن اور بش جونیئر نے اور اس دوران کسی ڈیموکریٹ صدر کو چیف جسٹس نامزد کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں پچھلے 70 سال میں 27 چیف جسٹس اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ 65 سال کی عمر میں ریٹائرمنٹ لازمی ہے اور چیف جسٹس ہمیشہ سب سے سینئر جج ہی ہو سکتا ہے۔ اب ٹرمپ کے مواخذے کے دوران امریکی چیف جسٹس رابرٹس پریذائڈنگ افسر کا کردار ادا کریں گے جنہیں پارلیمینٹیرین الزبتھ ملک ڈونا (Elizabeth Malone) کی مدد حاصل ہو گی۔  ان کے علاوہ 7 ہائوس منیجر ہوں گے جو ٹرمپ کے خلاف یعنی وکلائے استغاثہ ہوں گے، جبکہ وائٹ ہائوس کونسل کے علاوہ کانگریس کی دفاعی ٹیم بھی ہو گی جو ری پبلکن ہو گی۔ صدر ٹرمپ کا دفاع کرنے والوں میں کین اسٹار  (Ken Starr) اور رابرٹ رے  (Robert Ray) شامل ہیں جو کلنٹن کی تفتیش میں بھی شامل تھے۔ اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ امکان کے مطابق صدر ٹرمپ کا مواخذہ مکمل نہ ہو سکے گا اور سینیٹ انہیں بری کر دے گی لیکن یہ وقت بتائے گا کہ ٹرمپ اگلا انتخاب لڑتے ہیں یا نہیں۔

No comments.

Leave a Reply