یورپین پارلیمنٹ نے اتحاد سے برطانیہ کی علیحدگی کی حتمی منظوری دے دی

یورپی یونین کمیشن کے سربراہ ارسولا ون ڈیر لیئن

یورپی یونین کمیشن کے سربراہ ارسولا ون ڈیر لیئن

برسلز ۔۔۔ نیوز ٹائم

یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے برطانیہ کو تقریبا نصف صدی بعد اتحاد سے علیحدگی کے لیے حتمی منظوری دے دی جس کو اتحاد کے استحکام کے لیے ایک دھچکا تصور کیا جا رہا ہے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی ‘رائٹرز’ کے مطابق بیلجیم کے دارالحکومت برسلز میں یورپی پارلیمنٹ میں مسکراہٹوں اور سسکیوں سے بھرپور جذباتی مباحثے کے بعد بریگزٹ معاہدے کی منظوری کے لیے ووٹنگ ہوئی جس کے حق میں 621 اور مخالفت میں صرف 49 اراکین نے ووٹ دیا۔

رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کی 27 رکن ریاستوں نے گزشتہ برس اکتوبر میں ووٹ دے دیا تھا۔ بریگزٹ معاہدے کی ووٹنگ کے دوران 13 اراکین پارلیمنٹ نے ووٹ نہیں دیا اور ووٹنگ کے عمل کے بعد برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 73 اراکین کے لیے الوداعی تقریب کا اہتمام کیا گیا جہاں روایتی گیت بھی گائے گئے۔ قبل ازیں برطانوی سفیر نے دستاویزات یورپی یونین کے سینئر عہدیداروں کو تقریب میں پیش کی جہاں یورپی یونین اور برطانیہ کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ یورپی پارلیمنٹ سے باقاعدہ منظوری کے بعد برطانیہ جمعے کو یورپی یونین سے الگ ہو جائے گا جہاں وہ 1973ء میں داخل ہوا تھا اور یورپی یونین کے دفاتر سے برطانیہ کا جھنڈا بھی اتار دیا جائے گا اور یورپی یونین کے جھنڈے کو سرنگوں رکھا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کے تمام معاملات سال کے اواخر تک مکمل ہو جائیں گے  اور تجارت، سیکیورٹی سمیت دیگر تمام معاملات پر نئے تعلقات کے لیے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

یورپی یونین کمیشن کے سربراہ ارسولا ون ڈیر لیئن  (Ursula von der Leyen) کا کہنا تھا کہ ہمارا خیال ہے کہ تجارتی معاہدوں میں ٹیرف اور کوٹہ صفر ہو گا لیکن شرائط یہ ہیں کہ یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان کاروباری مسابقت کے لیے برابری کی سطح پر مواقع میسر ہوں گے اور ہم اپنی کمپنیوں کو غیر متوازن مسابقت سے دوچار ہونے نہیں دیں گے۔ یورپی یونین کی جانب سے مذاکرات کرنے والے وفد کے سربراہ مائیکل بارنیئر  (Michel Barnier) نے دیگر 27 اراکین کے نمائندوں کو بریفگ دیتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کو یوکرین کے ساتھ الحاق جیسے کمزور معاہدوں کو نئے رشتوں کی بنیاد پر رکھنا چاہیے۔

یاد رہے کہ برطانوی دارالعوام نے 10 جنوری کو بریگزٹ معاہدے کی منظوری دی تھی جس کے تحت برطانیہ 31 جنوری کو یورپی یونین سے الگ ہونے کے امکانات واضح ہو گئے تھے۔ دارالعوام میں رائے شماری کے دوران بریگزٹ معاہدے کی حمایت میں 330 اور مخالفت میں 231 ووٹ ڈالے گئے۔ بعد ازاں دارالعوام سے 23 جنوری کو بل منظور ہوا تھا اور اسی روز ملکہ ایلزبیتھ نے بل پر دستخط کر دیے تھے جو قانون بن گیا تھا  جس کے بعد برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی میں حائل تمام رکاوٹیں ختم ہو گئی تھیں۔

واضح رہے کہ 26 جون 2016 ء کو برطانوی عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ ڈال کر بریگزٹ کو کامیاب بنایا تھا تاہم یورپی یونین سے کس طرح نکلا جائے اس پر تقسیم اس قدر بڑھ گئی کہ بغیر معاہدے، یونین کو چھوڑنے کا ڈر خوف برطانوی عوام اور سیاستدانوں کو ستانے لگا۔ بریگزٹ کا معاملہ کئی برس سے زیر بحث تھا اور بریگزٹ کی منظوری میں ناکامی پر برطانوی وزیر اعظم کو استعفی دینا پڑا تھا۔ جولائی 2016 ء میں وزیر اعظم بننے والی تھریسامے   (Theresa May)نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا  لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کرتی رہیں کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کر لیں۔ مستقل ناکامی کے بعد تھریسا مے (Theresa May) نے گزشتہ برس 24 مئی 2019 ء کو انتہائی جذباتی انداز میں اعلان کیا تھا کہ وہ 7 جون کو وزیر اعظم اور حکمراں جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی رہنما کے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گی اور 7 جون کو انہوں نے اپنے عہدوں سے استعفی دے دیا تھا۔

اسی سال 23 جولائی کو برطانیہ کی یورپین یونین سے علیحدگی (بریگزٹ) کے حامی بورس جانسن اگلے وزیر اعظم کے لیے ہونے والی ووٹنگ کے آخری مرحلے میں کنزریٹو پارٹی کے قائد اور برطانیہ کے اگلے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ بورس جانسن کو بھی لیبر پارٹی کے اکثریتی ایوان میں شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور بریگزٹ کے حق میں قانون منظور نہ کروا سکے تھے جس کے بعد انہوں نے نئے انتخابات کی تجویز پیش کی جس کو اپوزیشن جماعت نے تسلیم کیا اور یوں دسمبر 2019 ء میں برطانیہ میں پھر انتخابات ہوئے۔ انتخابات میں بورس جانسن کو اکثریت حاصل ہوئی اور جنوری میں ہی معاملہ پارلیمنٹ میں آیا جہاں سے باآسانی بل منظور ہوا اور ملکہ ایلزبیتھ کے دستخط کے بعد بریگزٹ کا بل باقاعدہ طور پر قانون بن گیا۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973ء میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔ بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتدا میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی  تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہو گا کیونکہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہو چکا ہو گا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہو سکے گا۔

No comments.

Leave a Reply