ایڈولف ہٹلر اور جوزف سٹالن کیلئے نوبل انعام

جرمنی کے سربراہ ایڈولف ہٹلر اور سوویت یونین کے رہنما جوزف سٹالن

جرمنی کے سربراہ ایڈولف ہٹلر اور سوویت یونین کے رہنما جوزف سٹالن

نیوز ٹائم

دوسری جنگِ عظیم میں نازی جرمنی کے سربراہ ایڈولف ہٹلر کو عموما ایک سفاک اور جنگی جنون کا حامی حکمران سمجھا جاتا ہے مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ اسی ہٹلر کو نوبل انعام برائے امن کیلئے بھی نامزد کیا گیا تھا؟ جی ہاں! حال ہی میں منظرِ عام پر آنے والے تاریخی حقائق کے مطابق کروڑوں انسانوں کی موت کا ذمہ دار ہٹلر 1939ء تک نوبل انعام کا مضبوط امیدوار تھا۔ خوش قسمتی سے یہ اعزاز ہٹلر کے بجائے پناہ گزینوں کی بحالی کیلئے کام کرنے والے ایک ادارے کو دے دیا گیا  مگر ایک جنگی مجرم کی اس انعام کیلئے نامزدگی کے پیچھے ایک نہایت دلچسپ داستان ہے۔ نوبل انعام برائے امن کیلئے نامزد ہونے کیلئے لازمی ہے کہ مذکورہ فرد یا ادارہ عالمی امن کے فروغ اور مسلح جنگ کے خطرے کو کم کرنے کیلئے اہم کردار ادا کرے، یہ بات نہایت حیران کن ہے کہ ہٹلر جیسے شخص کو اس اعزاز کیلئے نامزد کیا گیا۔

سویڈن کے رکنِ اسمبلی ایرک برانڈٹ (Eric Brandt) جس نے ہٹلر کی نامزدگی کی پرزور حمایت کی تھی، کے مطابق نازی جرمنی کا رہنما برطانوی وزیر اعظم نیوائل چیمبرلین  (Neville Chamberlain) چیمبرز کے ساتھ 1938ء میں میونخ امن معاہدے پر دستخط کرنے کی وجہ سے نوبل انعام کا مستحق تھا۔ میونخ امن معاہدے کا پسِ منظر ہٹلر کا یہ دعوی تھا کہ چیکو سلواکیہ کا مغربی علاقہ دراصل جرمنی کا حصہ تھا اور وہ اسے حاصل کرنے کیلئے فوجی کارروائی کا منصوبہ بنا رہا تھا۔ اِن حالات میں جب بین الاقوامی کشیدگی عروج پر تھی، ہٹلر اور نیوائل چیمبرلین (Neville Chamberlain) کے درمیان 29 ستمبر 1938ء کو ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں فرانسیسی وزیر اعظم ایڈوارڈ وڈالا ڈئیر (Édouard Daladier)  بھی موجود تھے مگر چیکو سلواکین وزیر اعظم کو مذاکرات میں شامل ہونے کی دعوت نہیں دی گئی تھی۔ نیوائل  چیمبرلین (Neville Chamberlain) نے ہٹلر کو خوش کرنے کیلئے اس کے سارے مطالبات مان لئے اور یوں میونخ معاہدہ کے مطابق 16,000 مربع کلومیٹر کا علاقہ جرمنی کے قبضے میں چلا گیا اگرچہ چیکو سلواکیہ حکومت بالکل رضامند نہ تھی۔ میونخ معاہدہ کے یورپ پر نہایت تباہ کن اثرات مرتب ہوئے اور برطانیہ اور فرانس کی ہٹلر کو منائے رکھنے کی حکمت عملی کا الٹا اثر ہوا اور نازی جرمنی کا فوجی اور معاشی اثرورسوخ بڑھتا چلا گیا۔

ان یورپین طاقتوں کے مطابق وہ ہٹلر کو مطمئن رکھنا چاہتے تھے تاکہ ایک دوسری عالمی جنگ سے بچا جا سکے مگر جیسا کہ تاریخ گواہ ہے کہ یہ ممکن نہ ہو سکا، برطانیہ اور فرانس کی پرزور کوششوں کے باوجود ہٹلر کے جنگی عزائم بڑھتے چلے گئے جس کا نتیجہ 1939ء میں پولینڈ پر حملے اور دوسری جنگِ عظیم کے باقاعدہ آغاز کی صورت میں برآمد ہوا۔ یوں اس احمقانہ خوش آمدی پالیسی کا اختتام 8 کروڑ انسانی جانوں کے ضیاع، نسل کشی کے کئی خوفناک واقعات اور ایٹمی ہتھیاروں کی آمد پر ہوا۔ نوبل انعام کی تاریخ ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہے جب سیاسی مقاصد کیلئے یہ اعزاز ایسے افراد کو نامزد کیا گیا یا نوازا گیا جو کہ بالکل بھی مستحق نہ تھے۔  ایک اور مثال سوویت یونین کے رہنما جوزف سٹالن کی ہے جو کہ ایک وقت میں نوبل انعام کے مضبوط امیدوار تھے۔

ایک تازہ مثال میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی (Aung San Suu Kyi) کی ہے جنہیں 1991ء میں نوبل انعام برائے امن دیا گیا مگر روہنگیا مسلمانوں کے قتلِ عام پر میانمار حکومت کی مجرمانہ خاموشی پر انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے  اور ان سے اعزاز واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا جا رہا ہے۔ حتی کہ موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی نوبل انعام برائے امن دینے کی بات ہو رہی ہے جو کہ نوبل کمیٹی کیلئے شرمناک حرکت ہو گی۔

No comments.

Leave a Reply