جاپان: جدید ٹیکنالوجی اور محنت کشوں کا گڑھ

جاپان سب سے زیادہ ہائی ٹیکنالوجی والا ملک ہے

جاپان سب سے زیادہ ہائی ٹیکنالوجی والا ملک ہے

نیوز ٹائم

جاپان سے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ وہ ملک خوبصورت ترین، حسین امتزاج کا مالک، اصول و ضوابط کا محور، محنت کشوں کا گڑھ، تہذیب و ثقافت کا مظہر، انسانیت کا علمبردار ہے، تو غلط نہ ہو گا۔ جاپان سے متعلق دورے سے قبل بہت سی چیزیں پہلے سے عیاں تھیں جن میں سب سے زیادہ ٹیکنالوجی سے متعلق علم تھا کہ وہ ہائی ٹیکنالوجی والا ملک ہے  اور اس ٹیکنالوجی کا استعمال ان کے لیے بہت ہی عام ہے یا اس بات کا بھی علم تھا ہی کہ جاپانی صفائی ستھرائی میں بہت آگے ہیں اور یہ ان کی بنیادی تمیز و تمدن میں شامل ہے۔

جاپان کی طرف سے سارک ممالک کے لیے جینیسس 2019 ء پروگرام کے پیش نظر جب سب سے پہلے دن جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو پہنچے تو ایئر پورٹ پر ہی ان سے اصول اور قانون سے متعلق آگاہی مل گئی تھی، جس پر وہ سمجھوتہ نہیں کرتے۔  جاپان میں قطار تو ایسے بنتی ہیں جیسے کہ کوئی ہدایت دے رہا ہو لیکن درحقیقت کوئی بھی ہدایت دینے والا نہیں ہوتا اور خودبخود کسی بھی کام کو سہل بنانے کے لیے جاپانی قطار در قطار کھڑے ہو جاتے ہیں۔ جب شہر میں داخل ہوئے تو چاروں طرف دیکھ کر اس سوچ میں پڑ گئے کہ کیا سڑکیں ابھی ابھی بنی ہیں یا بڑی بڑی عمارتوں کو دھویا گیا ہے  یا پھر بڑے بڑے پراجیکٹس یعنی اپارٹمنٹ سمیت عمارتیں اتنی صاف ہیں کہ شاید وہ غیر آباد ہیں۔ خیر آگے چلتے گئے اور جاپان کے بارے میں براہ راست دیکھ کر جانتے رہے۔ بہت سی چیزوں سے آغاز میں ہی متاثر ہو گئے تھے لیکن جب ہوٹل پہنچے تو سب سے پہلے جس چیز سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ باتھ رومز تھے۔ ہائی ٹیکنالوجی کی بہترین مثال وہ باتھ رومز جہاں سینسر اور ٹچ سسٹم موجود تھا اور جو ہمیں نہ صرف جاپان کے شہروں بلکہ جاپان کے گائوں میں بھی ملے۔ الغرض جاپان میں ہر جگہ وہی سسٹم میسر تھا۔ بات کی جائے گائوں کی تو تصور کوئی اور ہی آتا ہے لیکن جاپان کے گائوں جا کر یہ سوچنا پڑا کہ کیا واقعی یہ گائوں ہے؟ کیونکہ وہاں کے گائوں کسی بھی ترقی یافتہ شہر سے پیچھے نہیں۔

دورے کے دوران جب ہم مختلف مقامات پر گئے، جن میں میٹروپولیٹن بلڈنگ، ٹوکیو ٹاور، نانزن یونیورسٹی، نوہمی بوسائی کمپنی، شپو آرٹ ویلیج، ٹویوٹا پلانٹ، نگویا کیسل، زازین ٹیمپل، آئی چی کمپنی سمیت مخلتف بہت سے مقامات شامل تھے، جہاں واقعی بہترین ایکسپوژر ہوا۔ مخلتف مقامات پر دورے کے دوران بہت اچھی طرح اس بات کو سمجھ گئے تھے کہ جاپانی اگر ترقی میں آگے ہیں تو وہ آگے ہونے کے حقدار بھی ہیں، کیونکہ وہ بلاشبہ بہت محنتی قوم ہے۔ جو اپنے کام کو بخوبی سرانجام دیتی ہے۔ البتہ کہیں کہیں اور خاص طور پر ٹویوٹا پلانٹ کے دورے کے دوران یہ گمان ہوا کہ جس طرح یہ کام کر رہے ہیں یہ واقعی انسان ہیں یا روبوٹ، جو کام کر رہے ہوتے ہیں تو بس لگن اور پھرتی سے کام کر رہے ہیں۔ ٹویوٹا پلانٹ کے دورے کے دوران جس حقیقت نے حیرانگی میں مبتلا کیا وہ یہ کہ لیکسس جیسی گاڑی جاپانی محض 17 گھنٹے میں تیار کر لیتے ہیں۔

بہت سی چیزوں کے ساتھ پہلے دن سے جو بات بہت اچھی طرح عیاں ہو گئی تھی وہ یہ کہ اگر وقت کی پابندی سیکھنی ہے تو جاپانیوں سے سیکھنی چاہیے جو منٹ تو بہت دور کی بات ہے سیکنڈ بھی لیٹ نہیں ہوتے اور اگر لیٹ ہو بھی جائیں تو معافی مانگتے نہیں تھکتے۔ دوسری چیز جس نے دل کو واقعی خوش کیا، وہ یہ تھا کہ وہاں نہ کوئی امیر دکھا اور نہ ہی کوئی غریب، سب ہی برابر تھے۔ البتہ کسی میں یہ بھی دلچسپی نہیں دکھائی دی کہ وہ آگے اور میں پیچھے یا میں آگے اور وہ پیچھے۔ دورے کے دوران جس ایک مشکل کا سامنا رہا وہ تھا ابلاغ۔ جاپانیوں کو انگریزی نہیں آتی اور شاید وہ سیکھنا بھی نہیں چاہتے۔  اس لیے مختلف مقامات پر ہمیں زبان کے باعث مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔  لیکن ایسی صورتحال میں ان کے پاس موجود گوگل ٹرانسلیٹر یا ترجمہ کرنے والی مشینیں کام آئیں، لیکن اس سے اکثر ابلاغ مشکل، تو کبھی سہل بھی ہوتا تھا۔

جاپان کے لیے جو ایک بڑا مسئلہ ہے، وہ ان کی آبادی میں کمی کا ہونا ہے۔  خاص طور پر ان کے پاس نوجوان نسل کا فقدان ہو گیا ہے، جس کو لے کر وہ پریشان ہیں اور انہوں نے اس بات کا اظہار بھی کیا۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ دنیا بھر سے نوجوان آئیں اور وہیں کے ہو جائیں۔ جس کے لیے جلد ہی مختلف ممالک کے لیے امیگریشن کا بھی آغاز ہونے والا ہے۔ دورے کے دوران اس بات کا بھی یقین ہوا کہ جاپان مہنگا سہی لیکن چھٹیاں گزارنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔ جہاں سیاحت کے لیے لاتعداد مقامات ہیں، جن سے 100 فیصد سیاح محظوظ ہوں گے۔ الغرض دل جوئی سے کام کرنا ہو یا وقت کی پابندی، دوسروں کی مدد ہو یا شائستہ انداز، ملک کے اثاثوں کی قدر ہو یا لوگوں کا احساس کرنا، صفائی ستھرائی پر یقین ہو یا ملک سے بے انتہا محبت، اپنی جاپانی زبان کا پرچار ہو یا ایسا بہت کچھ، وہ واقعی بہت آگے ہیں، جس کے وہ حقدار بھی ہیں۔

No comments.

Leave a Reply