ادلیب معاہدے کی خلاف ورزی پر ترکی کا روس کو انتباہ

ترکی اور روس کے مابین شامی کرد فورسز (پی وائے جی) کو ترک سرحد سے 30 کلومیٹر دور رکھنے کا معاہدہ طے پایا تھا

ترکی اور روس کے مابین شامی کرد فورسز (پی وائے جی) کو ترک سرحد سے 30 کلومیٹر دور رکھنے کا معاہدہ طے پایا تھا

انقرہ ۔۔۔ نیوز ٹائم

ترکی نے خبردار کیا ہے کہ اگر شام کے شمال مغرب سے متعلق ‘محفوظ زون’ کے امن معاہدے کی خلاف ورزیاں جاری رہیں تو انقرہ پلان بی (ایکشن) پر عملدرآمد شروع کر دے گا۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ترکی کے وزیر دفاع ہولوسی آکار (Hulusi Akar) نے کہا کہ اگر معاہدے کی خلاف ورزی ہوتی رہی تو ہمارے پاس پلان بی اور پلان سی ہے۔ ترک وزیر دفاع نے واضح کیا کہ ہم ہر موقع پر کہتے ہیں کہ ہمیں مجبور نہ کریں بصورت دیگر ہمارا پلان بی اور پلان سی تیار ہے۔ انہوں نے پلان بی اور سی کی تفصیلات بتانے سے گزیز کیا لیکن انقرہ کی جانب سے 2016 ء میں ہونے والی فوجی کارروائیوں کا حوالہ ضرور دیا۔ ترک وزیر دفاع نے کہا کہ معاہدے کے مطابق ہماری چوکیاں ادھر ہی رہیں گی اس کے باوجود اگر کوئی رکاوٹ ہے تو ہم نے واضح طور پر کہا تھا کہ جو ضروری ہو گا وہ ہم کریں گے۔ واضح رہے کہ روس کے ساتھ 2018 ء کے معاہدے کی رو سے ترکی نے ادلب میں 12 پوسٹیں قائم کی تھیں۔ اس ضمن میں ترکی کے سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ رواں ہفتے ان میں سے 3 پوسٹوں کو شام کے صدر بشار الاسد کی سرکاری فورسز نے گھیرے میں لے لیا تھا۔ جس پر ترک صدر رجب طیب اردگان نے دمشق کو رواں ماہ کے اواخر تک چوکیوں سے پیچھے ہٹنے کا کہتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو انقرہ (فوجی کارروائی کے ذریعے) انہیں واپس بھیج دے گا۔ انہوں نے روس پر بھی زور دیا کہ وہ شام کی حکومت کو جاری کارروائی کو روکنے کے لیے آمادہ کرے۔

واضح رہے کہ ترکی اور روس کے مابین شامی کرد فورسز (پی وائے جی) کو ترک سرحد سے 30 کلومیٹر دور رکھنے کا معاہدہ طے پایا تھا۔ معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی فورسز ‘سیف زون’ میں مشترکہ پیٹرولنگ کریں گی۔ اس پر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف (Sergey Lavrov) نے معاہدے سے متعلق کہا تھا کہ اس سے خطے میں خونریزی کا اختتام ہو گا۔

دوسری جانب ترک صدر رجب طیب اردگان نے مغربی ریاستوں پر تنقید کرتے ہوئے شام میں کرد جنگجوئوں کے خلاف ترکی کے آپریشن میں تعاون نہ کرنے پر ان پر دہشت گردوں کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا تھا۔ انقرہ کا ماننا ہے کہ وائے پی جی کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) کی ذیلی ‘دہشتگرد’ تنظیم ہے جو ترکی میں 1984ء سے بغاوت کی کوششیں کر رہی ہے۔ انقرہ، امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے ‘پی کے کے’ کو بلیک لسٹڈ دہشتگرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔ انقرہ کی کرد فورسز کے خلاف فوجی کارروائی پر بین الاقوامی سطح پر تنقید سامنے آئی ہے اور نیٹو ممالک نے نئے اسلحے کی فروخت معطل کر دی ہے۔ نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس اسٹولٹین برگ (Jens Stoltenberg) نے 9 اکتوبر سے شامی کرد فورسز کو سرحد کے پیچھے دھکیلنے کے لیے شروع ہونے والے آپریشن پر بارہا  ‘گہری تشویش’ کا اظہار کیا تھا۔

No comments.

Leave a Reply