بریگزٹ ہو چکا، اب۔۔۔!

برطانوی الیکشن کے نتائج نے ’’بریگز ٹ‘‘ کا پانسہ پلٹ دیا

برطانوی الیکشن کے نتائج نے ’’بریگز ٹ‘‘ کا پانسہ پلٹ دیا

نیوز ٹائم

بالآخر بریگزٹ بل پر ملکہ برطانیہ نے دستخط سبت کر دیے ہیں اور اب یہ قانون کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ساڑھے تین برسوں کے بعد برطانوی شہریوں نے قدرے سکھ کا سانس لیا جب بریگزٹ پر عملدرآمد شروع ہوا ہے۔ اس سارے عرصے میں ملک میں ایک ہی جان اور بے یقینی کی فضا قائم رہی اور سیاسی لحاظ سے بھی ہلچل رہی جس نے قومی رہنمائوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا تھا۔ اس دوران اظہار رائے کے حوالے سے برطانیہ دو حصوں میں منقسم رہا، کچھ کا خیال تھا کہ یہ عمل جلد از جلد مکمل ہو جبکہ کچھ سمجھتے تھے کہ یورپ سے انخلا کے معاملے پر نیا ریفرنڈم کروایا جائے اور کچھ کا اصرار تھا کہ اسے منسوخ کر دیا جائے۔ ابھی بریگزٹ کی رسمی کارروائی شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ برطانوی شاہی خاندان میں دراڑیں پڑ چکی ہیں جسے اچھا شگون نہیں سمجھا جا رہا۔ شہزادہ ہیری اور ان کی امریکی شریک حیات دونوں نے شاہی محل چھوڑ دیا ہے۔

برمنگھم پیلس کے اعلامیے کے مطابق وہ شاہی خدمت سے دستبردار ہو گئے ہیں اور ان سے HRH کے القابات بھی واپس لے لیے گئے ہیں۔ برطانیہ میں بریگزٹ کے معاملے پر نئے وزیر اعظم بورس جانسن بضد تھے کہ پچھلے سال اکتوبر کے اختتام تک یورپ سے کنارہ کشی اختیار کر لیں اور پھر بات قبل از الیکشن کی طرف چلی گئی۔ اس طرح پہلے لگ رہا تھا کہ تیسرے وزیر اعظم بھی بریگزٹ کی وجہ سے گھر چلے جائیں گے اور بریگزٹ شاید جلد ممکن نہ ہو، لیکن حالیہ انتخابات نے پانسہ یکسر پلٹ دیا ہے۔ حکمراں جماعت کو توقع کے برخلاف تاریخی فتح ملی اور جانسن سرخرو ہو گئے ہیں کہ انہیں بریگزٹ پر زبردست حمایت مل چکی ہے۔ آنے والے وقتوں میں بریگزٹ یعنی برطانیہ کے یورپی اتحاد سے کنارہ کشی کے بعد برطانیہ کے بارے میں تشویش لاحق ہے کہ اسے کئی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں جن میں شمالی آئرلینڈ کی سرحدوں کے تعین کا معاملہ، اسکاٹ لینڈ کے برطانیہ سے جڑے رہنے، جزیرہ جبرالٹر (Gibraltar Island) پر حق ملکیت کا فتنہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ کی درسگاہوں میں پڑھنے والے غیر ملکی طالبعلموں اور کام کرنے والے یورپی ورکروں کے لیے بھی پیچیدہ مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ بریگزٹ کی ابتدائی تاریخ 29 مارچ رکھی گئی تھی جسے 31 اکتوبر 2019 ء تک توسیع دی گئی اور آخر کار نئے سال جنوری 2020 ء کا آخری دن بریگزٹ پورا ہونے کا دن قرار پایا۔

یورپ سے طلاق یعنی بریگزٹ حاصل کرنے کی کہانی شروع ہوتی ہے 2016 ء سے جبکہ مقابلتاً اکثریتی رائے عامہ یورپ سے نکلنے کی حامی تھی۔ اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نہایت پرجوش اور مطمئن دکھائی دے رہے تھے لیکن ریفرنڈم کے نتائج نے انہیں مایوس کر دیا اور ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ چنانچہ وہ اسے اپنی اخلاقی شکست سمجھتے ہوئے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ یاد رہے کہ ریفرنڈم کے نتائج کی حمایت میں 53 فیصد اور اس کی مخالفت میں 47 فیصد ووٹ ڈالے گئے جو یورپ میں رہنے کے حامی تھے۔ مئی 2016ء میں نئی وزیر اعظم کے آنے کے بعد ان کے اقتدار کا سارے کا سارا وقت بریگزٹ کے دفاع میں گزرا اور صورت حال نے انہیں پریشان کیے رکھا، جن کی پارٹی کے 21 ارکان اپوزیشن سے جا ملے تھے۔ وزیر اعظم تھریسا مے (Theresa May) کو پارلیمان میں متواتر تین بار زبردست شکست و حزیمت کا سامنا کرنا پڑا تب وہ بریگزٹ کا دفاع نہ کر سکیں اور عہدے سے استعفی دے گئی تھیں۔ اگلے وزیر اعظم بورس جانسن نے آتے ہی بریگزٹ پر جارحانہ انداز اپنایا اور انہوں نے بریگزٹ کی ڈیڈ لائن 31 اکتوبر  کے لیے دوٹوک الفاظ میں اعلان کر دیا کہ وہ یورپی یونین سے کوئی معاہدہ یا ڈیل ہوئے بنا اس مقررہ تاریخ کو یورپ سے نکل جائیں گے۔ اپنے پلان کو کامیاب بنانے کے لیے یکطرفہ طور پر ملکہ کے حکم سے پارلیمنٹ کو 5 ہفتوں کے لیے تالا لگوا دیا تھا جو کہ غیر آئینی اقدام تھا جس کا مقصد محض یہ تھا کہ بریگزٹ پر کسی قسم کی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑے  اور نہ کوئی بحث و مباحثہ ممکن ہو سکے لیکن سپریم کورٹ نے مداخلت کر کے اس اقدام کالعدم قرار دے دیا اور پارلیمنٹ تین روز بند رہنے کے بعد دوبارہ کھول دی گئی۔ اپوزیشن کی سخت مزاحمت کو دیکھتے ہوئے آخرکار معاملہ نئے انتخابات پر ختم ہوا۔

بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ وزیر اعظم بورس جانسن بھی اقتدار چھوڑ دیں گے لیکن اس کے برخلاف موجود حکمراں پارٹی کنزرویٹو نے بھاری اکثریت سے میدان مار لیا اور بریگزٹ کے لیے راستہ ہموار ہو گیا۔ دو تہائی اکثریت کے بعد اب بریگزٹ پر عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔ اگرچہ برطانیہ میں عام انتخابات کا سال 2022 ء تھا لیکن بریگزٹ کے معاملہ سے نمٹنے کے لیے پارلیمنٹ میں اتفاق رائے احسن طریقے سے انجام پا گیا۔ اپنی کامیابی کے فوری بعد بورس جانسن نے کہہ دیا تھا کہ انہیں بریگزٹ کے لے بڑا مینڈیٹ مل چکا ہے۔ لیبر پارٹی کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے جس کے باعث پارٹی کے سربراہ جیرمی کوربن (Jeremy Corbyn) صدارت چھوڑ چکے ہیں۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد لیبر پارٹی کی یہ بدترین شکست تھی۔ اسے وہاں سے شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے جہاں 2016 ء کے بریگزٹ منصوبے پر ہونے والے ریفرنڈم میں زیادہ حمایت سامنے آئی تھی جن میں شمالی انگلینڈ، مڈلینڈر (Midlander) اور ویلز کے علاقے شامل ہیں۔ لیبر پارٹی کے ووٹوں میں 8 فیصد کمی آئی ہے۔ اس کے برخلاف اسکاٹ لینڈ کی قومی جماعت SNP کی زبردست جیت ہوئی ہے جس نے اسکاٹ لینڈ کی 59 سیٹوں میں سے 48 پر سبقت حاصل کی۔ یہ پچھلے الیکشن کے مقابلے میں 35 کے مقابلہ پر 13 سیٹیں زیادہ ہیں۔ ان نتائج کے فورا بعد ہی اسکاٹش قومی پارٹی کی سربراہ نکولا اسٹرجن (Nicola Sturgeon) نے کہہ دیا ہے کہ ہماری جیت دوسرے ریفرنڈم کا واضح پیغام ہے!  انہوں نے کنزرویٹو سے یہ گلہ بھی کر دیا ہے کہ ہم نے 2016 ء میں بریگزٹ پر ریفرنڈم میں یورپی اتحاد سے جڑے رہنے کے لیے ووٹ دیے تھے!

خیال رہے کہ اسکاٹ لینڈ بھی یورپی یونین کا ایک اہم رکن ہے اور برطانیہ کے یونین چھوڑنے کے نتیجے میں اسے بھی یورپی اتحاد سے الگ ہونا پڑے گا  اور دوبارہ سے یورپی اتحاد کا حصہ بننے کے لیے آزادانہ حیثیت تسلیم کروانی ہو گی۔ لہذا اب صورت حال اسکاٹ لینڈ والوں کے لیے نئے ریفرنڈم کی طرف جا رہی ہے اور جب ہی فیصلہ ہو پائے گا کہ وہ سلطنت برطانیہ کا جز رہنا چاہے گا یا پھر یورپی یونین کی گود میں پناہ لے گا۔ اسکاٹ لینڈ کی قومی جماعت نے موجودہ الیکشن میں ڈالے گئے اسکاٹش ووٹوں کا 45 فیصد حاصل کیا ہے  جو کہ خوش آئند ہے اور یہ پچھلے انتخابی نتائج سے8  فیصد بڑھ چکا ہے۔ برطانیہ میں اس الیکشن نے اچھے اثرات مرتب کیے ہیں۔ پائونڈ کی حد ڈالر کے مقابلے میں 1.35 بڑھی ہے لیکن یورو کے مقابلے میں قدر تین سالوں میں بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بورس کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا ہے کہ بریگزٹ کے بعد اب برطانیہ اور امریکا نئے تجارتی معاہدوں کے لیے آزاد ہوں گے۔ فروری کے مہینے میں یورپ سے ایک سفیر لندن بھیجا جا رہا ہے۔ 31 جنوری کی نصف شب کے بعد سے برطانیہ اب یورپ کے لے اجنبی ملک ہو چکا ہے۔ اگرچہ پڑوسی کے طور پر اس کی اہمیت رہے گی۔ یورپی پارلیمنٹ میں برطانیہ کے 29 نمائندے اپنا سامان باندھ چکے ہیں اور اب ملک کے وزیر اعظم جانسن بھی یورپی سربراہان ممالک کی کونسل میں نہیں جا سکیں گے  جبکہ ان سے بریگزٹ معاملات پر بات چیت جاری رہے گی۔ یورپی یونین کے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ مشیل بارنیئر (Michel Barnier) نے کہا ہے کہ  ہم متاثر نہیں ہوں گے!  وہ مزید کہتے ہیں کہ سب کچھ بدل جائے گا۔ ابھی انتظار کرنا ہو گا! یکم فروری سے ہی منتقلی کی میعاد شروع ہو چکی ہے اور یہ وقت ہی بتا سکے گا کہ برطانیہ و یورپ کے مابین نیا تعلق کیسا ہو گا؟ فوری طور پر کچھ بھی نہیں بدلا جانا ہے۔

لندن اور برسلز کے مابین یورپ سے دستبرداری کا معاہدہ  550 طویل صفحات پر مشتمل دستاویز ہے جو کہ علیحدگی کے انتظامات کرنے والا واحد آفیشل ڈاکومنٹ ہے،  اس کی بنا تھریسامے (Theresa May) اور بورس جانسن سے بات چیت نہایت مشکل عمل تھا۔  اس کے متن میں یورپی یونین میں برطانوی شہریوں کے حقوق جن میں معاشرتی تحفظات اور ریٹائرمنٹ وغیرہ کے بارے میں طے کیا گیا ہے جس میں ان کی ساری زندگی کی ضمانت دی گئی۔ اس پر پیچھے ہٹنے والا کوئی قانون لاگو نہیں ہو گا۔ دوسری طرف ان کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے خود کو رجسٹرڈ کروانے کے لیے کاروائی مکمل کریں۔ اس طرح کا جو بھی تنازعہ پیدا ہو سکتا ہے اس کے لیے ایک آزاد اتھارٹی تشکیل دی جا رہی ہے۔ سیاحتی لحاظ سے 2021 ء تک یورپ یا برطانیہ سے دوطرفہ ٹریفک کی صورت حال جوں کی توں رہے گی جبکہ ملک میں داخلے کے وقت اصلی شناخت درکار ہو گی۔ یورپی یونین اور یورپی کمیشن کے سربراہان نے بھی انخلا کے اس معاہدے بریگزٹ پر دستخط کر دیے ہیں۔ اگلی باری یورپی پارلیمنٹرین کی ہے۔  اس وقت یورپی قائدین کے لیے مذاکراتی مینڈیٹ کا فیصلہ کرنا ہو گا جس کا اختیار مشیل بارنئیر(Michel Barnier) کو دیا گیا ہے۔ مذاکرات جاری ہیں اور خیال ہے کہ یہ 25 فروری تک جاری رہیں۔

امیگریشن اور تجارتی ڈیل: بریگزٹ کے فوری صدمے کے اثرات سے نمٹنے کے لیے 11 ماہ کا وقفہ دیا جا رہا ہے۔ اسے عبوری دور (Period Transition) کہتے ہیں۔ اس عبوری وقت میں برطانیہ کے ساتھ یورپی تعلقات کے حوالے سے برطانیہ سے سختی سے بات چیت کی جائے گی جو علیحدگی کے ابتدائی اثرات میں سے ایک ہے۔ تجارتی ڈیل جسے سیاسی اعلامیہ کہا جا رہا ہے، یہ ایک خاکہ ہے جسے یورپ سے نکلنے کے ساتھ ہی شائع کیا جائے گا۔ اگر سب ہی کچھ منصوبہ بندی کے تحت ہوتا ہے جیسے کہ بریگزٹ کے بعد تجارت کیسے ہو گی؟ تو ان تفصیلات کو اس عبوری مدت کے دوران جاری کیا جائے گا۔ اس ڈیل کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ باقاعدہ یورپ سے برطانوی انخلا سے پیدا ہونے والا خلا کو کسی حد تک پر کیا جا سکے اور ایک نئے تعلق کی شروعات ہو سکے۔

یورپی یونین سے علیحدگی کا ایگزٹ بل جسے Withrawal Agreemnet  کہا جاتا ہے، پارلیمنٹ میں 358 کے مقابلے میں  234 ووٹوں سے پاس ہوا تھا۔ ایگزٹ ڈیل 27 صفحات پر مشتمل ہے جس کا ٹائٹل ہے،  Political Declaration Setting out of The Framework for the Future Relation between Europian.Union and The United Kingdom. ۔ برطانوی عوام جاننا چاہتے ہیں کہ یونین سے تجارت جاری رہے گی جس میں مال کے محصولات کے لیے درآمدی اشیا کی ادائیگی یا مخصوص برقرار کوٹا رہے گا؟ پچھلے سال برطانیہ کی کل تجارت (اشیا و خدمات1.3ٹریلین) پائونڈ تھی۔ بی بی سی نے اپنے تبصرے میں کہا ہے کہ برطانوی کابینہ نے متفقہ طور پر قومیت کے بجائے مہارتوں کی بنیاد پر ایک نظام کی حمایت کی ہے جبکہ پچھلی وزیر اعظم تھریسامے  (Theresa May) متعدد بار دہرا چکی ہیں کہ بریگزٹ کے بعد یورپ سے لامحدود امیگریشن ختم ہو جائے گی! ایک اصولی اتفاق بھی زیر غور ہے کہ کام کی رسائی کے لیے تعصب کو ہوا نہ دی جائے جبکہ ایک ممکنہ عمل یہ ہے کہ یورپی یونین کے شہریوں کے لیے ہلکا ٹچ مائیگریشن کا قانون بریگزٹ ڈیل کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔

جزیرہ جبرالٹر کا جھگڑا: جب سے بریگزٹ شروع ہوا ہے اس جزیرے جبرالٹر کا تنازعہ بھی سر اٹھانے لگا ہے۔ یہاں 711  سے 1462  تک مسلمانوں کی حکومت قائم رہی تھی۔ اسپین کی جنوبی حدود میں یہ پہاڑی علاقہ جو چونے کے پتھر راک آف جزائر کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے  مسلمانوں کے بعد اسپین کے پاس چلا گیا جس کے بعد اینگلو ولندیزی فوج  (Anglo-Dutch Army) نے اسے اسپین سے چھین لیا تھا۔ لیکن 1713ء سے یہ برطانوی علاقہ ہے۔ یہ نہایت اہم محل وقوع کا حامل فوجی دفاعی علاقہ ہے جہاں فوجی اڈا، بندرگاہ اور جہازوں کے اڑنے اور اترنے کے لیے فضائی پٹی بھی ہے۔ یہ تجارتی جہاز رانی، تیل کی ترسیل اور فوج سے متعلق ساز و سامان کی منتقلی کے لیے اہم جگہ ہے۔ اگرچہ یورپی یونین کا حصہ ہونے کے باوجود جبرالٹر باہر سے درآمدات پر اپنے ٹیرف خود مقرر کرتا ہے،  تاہم اسپین اور برطانیہ دونوں اس پر اپنا حق ملکیت جتاتے ہیں اور اپنے دعوے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کا حوالہ دیتے ہیں۔

32000 ہزار افراد پر مشتمل آبادی کے اس جزیرے کو حق خوداردیت حاصل ہے لیکن اسپین اسے نہیں مانتا۔ 2002 میں جبرالٹر کے رہنے والے 99 فیصد رہائشیوں نے اسے مسترد کر دیا تھا کہ جبرالٹر کی خودمختاری مشترکہ طور پر برطانیہ اور اسپین کے پاس رہے۔ اسپین کو تشویش ہے کہ جزیرے کی سرحد کا ناجائز استعمال ہو رہا ہے اور اس کے وسائل کو نقصان ہو رہا ہے۔ بریگزٹ معاملے پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے سے مستقبل میں برطانیہ کے ساتھ جو معاہدہ طے ہو گا وہ اسپین کی مرضی کے بغیر جبرالٹر پر لاگو نہیں ہو گا۔ یہاں کے انگریز باشندوں نے بریگزٹ کے خلاف ووٹ دیے تھے۔ اس وقت کے برطانیہ کے وزیر خارجہ اور موجودہ وزیر اعظم جانسن نے کہا تھا کہ جبرالٹر کی خودمختاری میں کوئی تبدیلی نہ آئی ہے اور نہ آئے گی۔ لیکن اسپین والے اس صورت حال سے نالاں ہیں۔

اب یورپ سے کیا انگریزی بھی رخصت ہو جائے گی؟ بریگزٹ کی کہانی کے ساتھ ہی یورپین یونین کی اپنی زبانوں سے وابستگی اور قومیت پرستی بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ یونین کے 28 ممالک کی 24 سرکاری زبانیں ہیں۔ یہاں زبان کی مساوات کو اولیت حاصل ہے۔ 2016 میں ممبر یورپی پارلیمنٹ اور چیئر آف دی پارلیمنٹ برائے آئینی معاملات محترمہ ڈینوتا ہنبر (Danuta Hunber) نے کہہ دیا تھا کہ if we dont have the UK, we dont have English! ۔ یعنی اگر ہم برطانیہ کو نہیں رکھیں گے تو ہم انگریزی کو بھی نہیں رکھیں گے۔ یہ محترمہ اس معاملے پر بہت سرگرم ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ یونین کی سرکاری زبانوں کو خطرات لاحق ہیں۔

جرمن چانسلر انجیلا مرکل بھی دوٹوک الفاظ میں کہہ چکی ہیں کہ بریگزٹ کے بعد برطانیہ کی مرضی چلنے والی نہیں ہے! جبکہ یورپی پارلیمنٹ کے سنیئر ارکان کا مطالبہ ہے کہ یونین سے اخراج کے بعد انگلش زبان بھی زیادہ دیر تک یونین کی سرکاری زبان کے طور پر نہیں رہ سکے گی۔ اسے بھی یونین سے فارغ کر دیا جائے گا۔ یورپی ماہرینِ لسانیات کہتے ہیں کہ انگریزی ایک حکمرانی کرنے والی (dominate) زبان ہے۔ یورپ میں انگریزی نہ بولنے والے دوسروں کے مقابلے میں پس ماندہ رہ جاتے ہیں۔ لسانی طور پر یہاں یونین کی ہر ریاست کو مساوی حقوق حاصل ہیں کہ وہ اپنی زبان کو سرکاری طور پر استعمال کرے۔ فرانسیسی سیاسی رہنما جین لوس میلنجان (Jean-Luc Mélenchon) نے بھی بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ انگریزی یورپی پارلیمنٹ کی ورکنگ زبان کی حیثیت سے زیادہ دیر اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی!

اٹلی سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون ممبر یورپی پارلیمنٹ نے انگریزی پر اپنا غصہ اتارتے ہوئے کہا ہے کہ ہم آخر اب تک کیوں اس لغو زبان کو برداشت کیے ہوئے تھے!  یورپ میں ایک مشترکہ زبان کے طور پر اسپرانتو (Esperanto) یورپی یونین کئی سالوں سے سرگرِم عمل ہے۔ اسپرانتو (Esperanto) کے حامیوں ان کا کہنا ہے کہ یورپ کی تمام سرکاری زبانوں کے ساتھ بنیادی اصول اور ثقافتوں کے ساتھ مساوات کا احترام مشکل ہے۔ انگریزی مرکزی یونین بینک کی واحد ورکنگ زبان ہے جو کہ تعصب کا شکار ہو چکی ہے اس لیے سیکھنے میں آسان اور منصفانہ زبان اسپرانتو (Esperanto) کا انتخاب کیا جائے۔

No comments.

Leave a Reply