نیوز ٹائم
آج 14 فروری ہے جسے عام طور پر ‘ویلنٹائن ڈے’ بھی کہا جاتا ہے، بعض لوگ اس دن کو اپنے محبوب سے محبت کے اظہار کے لیے وقف کر دیتے ہیں تو کئی لوگوں کے لیے یہ دن بھی عام دنوں کی طرح ایک مصروف دن ہوتا ہے تاہم بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ 14 فروری کو ایک اور دن بھی منایا جاتا ہے۔ جی ہاں، سائنس کے شوقین افراد بھی کم سے کم گزشتہ 3 دہائیوں سے ہر سال 14 فروری کے لیے بہت پرجوش ہوتے ہیں کیونکہ سائنس سے وابستہ افراد ہر سال اس دن ‘ہلکے نیلے نقطے’ سالگرہ منا رہے ہوتے ہیں، عام افراد کو سننے میں یہ بات بہت عجیب لگے گی تاہم اس کا تصور ہی دماغ کے دریچوں کو کھولنے کے لیے کافی ہے۔
سائنس کے شوقین افراد یہ جانتے ہیں کہ انسانوں کی بنائی گئی کل 3 خلائی گاڑیاں ایسی ہیں کہ جن میں سے 2 ہمارے نظام شمسی سے باہر جا چکی ہیں اور تیسری نظام شمسی کے کنارے پر ہے، یہ خلائی گاڑیاں وائجر ون (Voyager One) ، وائجر ٹو (Voyager II) اور نیو ہورائیزن (New Horizons) ہیں، ان تینوں نے اپنی اپنی منزلیں طے کیں اور ہمیں نظام شمسی کے بیرونی سیاروں، جن میں مشتری، زحل، یورینس (Uranus) اور نیپچون (Neptune) اور بونا سیارہ پلوٹو (Dwarf planet Pluto) شامل ہے کے بارے میں معلومات فراہم کی لیکن وائجر ون (Voyager One) خلائی گاڑی نے وہ کارنامہ کر دکھایا جس کا آج تک ہر سائنسی اور فلسفی محفل میں ذکر کیا جاتا ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ 1990ء کے آغاز میں مشہور فلکیات دان ڈاکٹر کارل سیگان (Dr. Carl Segan) جو کہ امریکی خلائی ادارے ناسا کے ابتدائی دنوں میں مشیر بھی رہ چکے ہیں انہوں نے مشورہ دیا کہ وائجر ون (Voyager One) خلائی گاڑی جو اس وقت سیارہ نیپچون (Neptune)کے مدار سے آگے جا چکی تھی کا رخ زمین کی طرف کیا جائے اور تقریبا 6 ارب کلومیٹر کی دوری سے نظام شمسی کی ایک تصویر لی جائے۔ یوں 14 فروری 1990ء کو ناسا کی طرف سے وائجر ون (Voyager One) خلائی گاڑی کو کیمرے اسٹارٹ کرنے کا پیغام بھیجا گیا اور معیاری وقت کے مطابق 14 فروری 1990 کو وائجر ون(Voyager One) نے نظام شمسی کے مرکز کی طرف اپنا رخ کیا اور ایک تاریخی تصویر کھینچی جس میں سورج کی روشنی میں یہ مدھم نیلا نقطہ معلق تھا جس پر اس وقت تقریباً 5 ارب انسان اپنی روز مرہ زندگی میں مشغول تھے۔
چونکہ آج تک کوئی انسان اتنی دور نہ گیا اور نہ ہی مستقبل قریب میں جا سکے گا تو اس مقام سے تمام انسانیت کو چھوٹے سے نقطے میں قید دیکھنا ہم انسانوں کو اس کائنات میں اپنی وقعت کا احساس دلاتا ہے، آج وائجر ون (Voyager One) کو اس تصویر کو کھینچے 30 سال ہو گئے اور یہ خلائی گاڑی اب ‘انٹرسٹیلر اسپیس’ (Interstellar Space) یعنی ستاروں کے بیچ کی خلا میں موجود ہے۔ 14 فروری 2020 ء سے لے کر 20 فروری 2020 ء تک دنیا میں جگہ جگہ اس نقطے کی 30 ویں سالگرہ پر فلکیاتی تقریبات منعقد ہو رہی ہیں جن میں لوگوں کو فلکیات کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دوربینوں سے آسمان کا مشاہدہ بھی کروایا جائے گا۔ اس تصویر میں سورج کی تیز روشنی میں چھپے اس مدھم نیلے نقطے کے پیچھے چھپی پوری داستان کارل سیگان (Dr. Carl Segan) نے 1994ء میں شائع ہونے والی اپنی کتاب میں بیان کی جس کا عنوان ”مدھم نیلا نقطہ: خلا میں انسانی مستقبل کا نظارہ” تھا، اس کتاب میں انہوں نے نہایت خوبصورتی سے انسانیت اور انسانی سوچ کا نقشہ کھینچا ہے کہ پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے۔
نظام شمسی کے کنارے سے زمین کی جو تصویر وائجر ون (Voyager One) خلائی گاڑی نے بھیجی اس میں زمین کا حجم ایک پکسل (تصویر کا اکائی) سے بھی کم تھا اگر ہم اس تصویر پر غور کرنا شروع کریں تو سوچ کا پورا سمندر امڈ آئے گا کیونکہ یہ نقطہ وہی جگہ ہے جہاں ہر وہ شخص گزرا ہے جسے آپ نے تاریخ میں پڑھا یا آپ حقیقت میں ملے۔ اسی نقطے میں ہی بہت سے بادشاہوں نے اپنے غلاموں پر ظلم کی انتہا کی، یہیں بہت سے محبت کرنے والوں کو سنگسار کر دیا گیا اور اسی نقطے کے چھوٹے سے حصے کے لیے بہت سے قبائل نے ایک دوسرے کی خونریزی کی اور یہیں بہت سے مذاھب وجود میں آئے اور ادھر ہی حکومتیں بنی بھی اور کرپشن بھی ہوئی، مختصراً یہ کہ ہم انسان اس زمین پر تقریبا 2 لاکھ سال سے موجود ہیں لیکن ابھی تک ترقی کی اس منزل تک ہی پہنچے ہیں جہاں ساڑھے 7 ارب لوگوں میں سے صرف 12 لوگ ہی چاند سے ہو کر آئے ہیں۔
یہ سب پڑھنے کے بعد انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس کائنات میں تو دور اس دنیا میں ہماری حیثیت کس قدر کم ہے لیکن اس کے باوجود ہم میں سے بہت سے لوگ ‘خدا’ بنے پھرتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہم انسان اس کائنات میں انتہائی چھوٹے تو ہیں لیکن ہماری سوچ ہمیں ستاروں سے آگے لے جا سکتی ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ دوسروں پر اپنا رعب دکھانے کی بجائے اپنی عقل کے گھوڑوں کو دوڑائیں اور اپنے معاشرے میں ایک مثبت سوچ پیدا کریں۔