ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی وجہ بنی: کانگریشنل ریسرچ سینٹر

ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی وجہ بنی

ٹرمپ کی ثالثی کی پیشکش کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کی وجہ بنی

واشنگٹن  ۔۔۔ نیوز ٹائم

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت اور پاکستان کے مابین کشمیر کے تنازع پر ثالثی کی پیشکش ممکنہ طور پر نئی دہلی کی جانب سے مقبوضہ وادی کے الحاق کی وجہ بنی۔  امریکی کانگریس کے لیے تیار کردہ رپورٹ میں کانگریشنل ریسرچ سروس (سی آر ایس) کا کہنا تھا کہ 22 جولائی 2019 ء کو وزیر اعظم عمران خان کے ہمراہ صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے  امریکی صدر نے دعوی کیا تھا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے انہیں مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے لیے کہا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان سے بھارتی پارلیمان میں تہلکہ مچ گیا تھا اور اپوزیشن نے حکومت سے وضاحت پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایوان سے واک آئوٹ کیا  جس پر بھارتی حکومت حزب اختلاف کو یہ یقین دہانی کروانے پر مجبور ہو گئی تھی کہ نریندر مودی نے کبھی ایسی کوئی پیشکش نہیں کی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستانی رہنما کے گرمجوش استقبال، ان کی یہ خواہش کہ پاکستان، امریکا کو افغانستان سے خود کو نکالنے میں تعاون کرے  اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے بیل آئوٹ پیکج کے لیے امریکی حمایت جیسی عناصر نے مل کر بھارتی تجزیہ کاروں میں تشویش پیدا کی۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بھارتی رہنمائوں نے دیکھا کہ واشنگٹن دوبارہ بھارت اور پاکستان کو تصوراتی طور پر جوڑ رہا ہے  اور پاکستان کی اس طرح حمایت کر رہا ہے کہ جس سے بھارتی مفادات کو نقصان پہنچے۔ رپورٹ کا یہ بھی کہنا تھا کہ بالخصوص امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کے دعوے نے بھارتی مبصرین کو دھچکا پہنچایا،  جس میں سے کچھ نے نریندر مودی کے اعتماد کی حکمت پر سوال اٹھانا شروع کر دیا تھا۔

سی آر ایس کا مزید کہنا تھا کہ یہ صورتحال بھی ممکنہ طور پر بھارت کی جانب سے اگست میں کشمیر کا الحاق کرنے کے اقدام کی وجہ بنی۔ حالانکہ امریکی صدر نے ثالثی کی پیشکش کبھی واپس نہیں لی لیکن سخت بھارتی ردِعمل نے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو سوشل میڈیا پر ایک وضاحتی بیان جاری کرنے پر مجبور کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ واشنگٹن اب بھی کشمیر کو دونوں فریقین کے درمیان گفتگو کے لیے باہمی مسئلہ سمجھتا ہے اور ٹرمپ انتظامیہ اس سلسلے میں معاونت فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ چیئرمین آف ہائوس فارن کمیٹی کے نمائندے ایلائٹ اینجل (Eliot Engel) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کشمیر پر امریکا کے دیرینہ موقف کی حمایت کو دہرایا اور اس بات پر زور دیا کہ پاک-بھارت مذاکرات کی وسعت اور رفتار باہمی عزم پر منحصر ہے اور پاکستان سے مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے کا کہا۔ 6 ماہ میں کشمیر سے متعلق اپنی دوسری رپورٹ میں سی آر ایس کا یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت میں بہت سے افراد مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کے تنازع کو بیرونی دہشت گردی کے پیچھے چھپانے سے اتفاق نہیں کرتے۔

سی آر ایس نے یہ بھی کہا کہ مودی حکومت کے ناقدین کو یقین تھا کہ وہ ہندو قوم پرست ایجنڈے پر کام کر رہی ہے تاکہ مقبوضہ وادی کی حیثیت تبدیل کر دی جائے۔خیال رہے کہ کانگریشنل ریسرچ سینٹر امریکی ایوانِ نمائندگان کا آزادنہ تحقیقی ونگ ہے جو امریکی قانون سازوں کے لیے وقتاً فوقتاً رپورٹس تیار کرتا ہے تاکہ وہ بڑے بین الاقوامی معاملات پر باخبر فیصلے کر سکیں۔ فی الوقت امریکی ایوان میں 2 قراردادیں زیر التوا ہیں جو بھارت کی جانب سے 5 اگست کو کشمیر کے الحاق پر سوال اٹھاتی ہیں، اس میں سے ایک بھارتی نژاد امریکی رکن کانگریس پامیلا جیا پال نے پیش کی تھی جو نریندر مودی کی حکومت کو مسلمان مخالف پالیسز پر تنقید کا نشانہ بناتی ہیں۔ سی آر ایس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ نئی دہلی کے ہندو قوم پرست ایجنڈے کے حمایتی کشمیر کے مذاکراتی حل کے مخالف ہیں۔

25 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان نے چین کی حمایت سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا جس پر 5 دہائیوں سے زائد عرصے میں پہلی مرتبہ 16 اگست کو مسئلہ کشمیر پر گفتگو کرنے کے لیے کونسل کا اجلاس ہوا تھا۔ سی آر ایس نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ بھارت اپنے آپ کو خطے کا رہنما ظاہر کرتا ہے جسے کسی مدد کی ضرورت نہیں یہ چیز اسے کشمیر کے معاملے پر تیسرے فریق کی ثالثی پیشکش قبول کرنے سے روکتی ہے۔

No comments.

Leave a Reply